وصف ہے دوستو یہ دریا دلی کا
تم تو چاہو ہو قطرے کو سمندر دیکھو
اور پھر ہر قطرے کو گہر در گہر دیکھو
دیکھ کر سارے جہاں کو بھی
پھر ہم کو ہی بار دگر دیکھو
دیکھو، مگر یوں نہ ٹھہر کر دیکھو
کہ زمانہ اپنا چلن ہی
رہن رکھ دے اس انداز وفا پہ
کہ لگ جائے نہ
کسی اندیشہ ء بے نام کی نظر دیکھو
دیکھو….. مگر ہم کو
ذرا سوچ سمجھ کر دیکھو
کہ سونے کے ذرات ہوں جس مٹی میں
وہ یونہی چکا چوند کیا کرتی ہے
اور جس مٹی کو
گل خزاں کی کھاد سے پالا گیا ہو
وہ خوشبو کا قرض نسل در نسل ادا کرتی ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی