ذہن کی تاریک گلیوں سے رستہ واحد
ملا جو مجھ کو تو بدن خراش خراش لئے بڑھا
اور دیکھا تو سبھی راستے سراب ہوگئے
فلک بھی نظر آتا نہیں زمیں سے جدا
وہی نادیدہ عفریتوں کا نزول
وہی منزل کو ڈھانپے ہوئے راہرئوں کی دھول
نہ جانے کس سمت لئے جارہے ہیں
مدتوں سے بہکے فطرتوں کے اصول
اور میں کہ اپنی نظر کی تھکان کو ہمیشہ
پس پشت ڈال کر دیکھتا ہوں آگے
کہ کہیں تو یہ غبار گرد آلودہ چھٹے
تو میری کشتی ء جاں بھی ٹھکانے جا لگے
مگر ناخداوں کے جھگڑے ختم بھی تو ہوویں
کوئی بات بھی انہیں متفق تو کرے
تو میں مان لوں گا ان کے ہر اک کہے کو تب
پھر چاہے مجھے غرق کیوں نہ ہونا پڑے
زندگی تجھے کچھ اور نہیں میسر
پلٹ آتے ہیں وہی ہنگام شام وسحر
کل بھی تجھ سے تھا نالاں اک عالم
آج بھی تو اک دشوار راہ گزر
کتنے ہی کارواں آئے آکر چلے بھی گئے
جن کی امیدوں کے چراغ گل ہوئے تیرے ہاتھوں
آنکھیں روتیں رہیں اور دل سسکتے رہے
ہیں میرے شمار سے باہر وہ جو مغموم رہے تیرے ہاتھوں
شعار نہ بدلا گوکہ معیار بدل لیا تو نے
ایک ہی انداز چلا آتا ہے تیرا قاتلانہ
کہیں تیرے دم سے گل و گلزار سی شادابی
کہیں حیات کے نام پر تیرا طریق وحشیانہ
ایسے کرلاتے چہروں پر نظر تو کر
جو کلنک کا ٹیکہ ہیں تیرے ماتھے پ
اسلم مراد
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی