یادش بخیر 4

Front view of a smiling woman

صبح صبح کمرے کا دروازہ کھلتا ہے شہباز یونیفارم ہاتھ میں لئے ۔۔۔
سوئی ہوئی بہن کو مخاطب کرتا ہے
“استری کردو “
وہ نیند میں ہی سن لیتی ہے
تڑک کر
“خود کر لو جاکے ۔۔ “
“بیٹا ایسا نہ کیا کرو ۔۔۔ بھائیوں کے چھوٹے چھوٹے کام کر دیا کرو ۔۔۔ اگلے گھر جاکر بھی تو “چولوں ” کی خدمت کرو گی “
میں نے مشرقی پھپھو بن کر سمجھایا وہ میری بات سمجھ گئی کہ اپنی ماں کو آج تک ہم ‘چولوں’ کا خیال رکھتے دیکھتی آئی ہے
فورا اٹھ گئی ۔۔۔
اور بھائی شہباز کے کپڑے استری کرنے چلی گئی باہر ۔۔۔ فورا واپس آگئی
“پھپھو ۔۔ استری کر رہا ہے خود ہی آئندہ کر دوں گی “
سمجھی بھی مگر اتنی بھی نہیں سمجھی ۔۔
بیٹی ماں کی ہے تو بھتیجی تو مجھ ہڈ حرام کی ہی ہے نا ۔۔۔ ہاہاہا


کبھی کبھار ہلکی پھلکی ایکسر سائیز کرتی
جونہی امی جی مجھے ہاتھ پیر ہلاتے دیکھتیں
بیڈ پر لیٹے لیٹے اپنے دائین پرانے مجروح بازو کی مڑی ہڈی ہونے کے باعث مشکل سے اسے اپنے بائیں فالج زدہ بازو کی طرف لے آتیں اور قمیص کے بازو کا کونا پکڑ کر
بالآ خر سیدھے ہاتھ سے الٹا ہاتھ پکڑنے میں کامیاب ہوجاتیں اور میں صدقے جاؤں میرے ساتھ اپنے بازو کی ایکسر سائیز شروع کر دیتیں
ان کی عادت تھی بچوں کی ہر ایکٹیوٹی میں شامل ہوجاتیں چاہے فلم دیکھ رہے ہوں ٹی وی دیکھ رہے
فالج کے باوجود ایک دن پوتے پوتیوں کے ساتھ لوڈو کھیل رہی تھیں چھکا اچھال دیتیں اور بچوں کو اشارے سے بتا تیں گوٹی چلانے گا…..
کھانے پینے میں بچوں کی طرح تنگ کرنے لگی تھیں جس کا حل بھابی نے یہ نکالا کہ ٹی وی پر بچوں اور انکا پسندیدہ BTS کورین سنگر بوائز کا سانگ لگا دو چپ چاپ وہ دیکھنے میں محو رہتیں اور انشور پی لیتیں…. خوراک تو صرف ان کی انشور ہی تھا ڈھائی تین سالوں تک…. اس کے علاوہ کچھ نہیں کھا پاتی تھیں
لوڈو وہ شروع ہی سے بہت شوق سے کھیلتی تھیں اور بچوں سے بھی گوٹ پر تیز بھی ہوجاتی تھین ایک بار میں ان کے مقابلے مین کسی بچے کا ساتھ دینے لگی شرارتا وہ ہاریں یا جیتیں مجھے یاد نہیں مگر گیم کے بعد انہوں نے مجھے خاطر خواہ سنجیدہ طنز و مزاح سے نوازا
اللہ امی جی کی اور ہمارے سارے پیاروں کی جو اس دنیا سے پردہ فرماگئے ہیں مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس کے اعلی درجات سے نوازے آمین ثم آمین


معذرت کے ساتھ :
بچپن میں امی جی سے گالیاں کھائی ہیں
بی بی سے سنی ہیں
جوں جوں عمر بڑھ رہی ہے
دماغ چٹخ رہا ہے
لاشعور میں دبے خزانے کا کوئی نہ کوئی ماسٹر پیس نوک زبان پر آتے آتے رک جاتا ہے
آج ‘ نونچی’ یاد آئی
جو امی جی بہت چھوٹی بچی کو بڑی شرارت پرفارم کرنے پر گالی دیتی تھیں
نونچی مطلب (نو انچی مگر پٹاخہ)
یا پھر باجی کا پیار سے اکثر کہنا ‘دادی پخمہ’
ہمارا فرض ہے ہم بچوں کی موجودگی میں کبھی کبھار گالی وغیرہ دیا کریں بچے زبان کے اس چٹخارے یا لغت سے نابلد نہ رہ جائیں
ہمیں اپنے بچوں کو گالیاں بھی سکھانی ہیں کہ یہ کسی بھی زبان کا کھٹا میٹھا چٹخارہ ہے


550 دیاں آن لائن سوئیاں چبھون لئی نئیں ۔۔۔ کشیدہ کاری کرن لئی اصل قیمت 270 اوپرلے ڈلیوری چارجز
گھر چ جدوں پچھو سوئی نئیں لبھدی ۔۔۔ھن ایہہ بارہ عدد نکیاں وڈیاں نکے نکے کم آن گئیاں ۔۔۔ کم ازکم ٹٹے بٹن تے لگ ای جان گے تے ادھڑے شدھڑے تروپے وی سپ جان گے ۔۔۔ مینوں سوئی دھاگے نال کم کردیاں نکے ہوندیاں توں سواد آندا اے ، گڈیاں پٹولے سین وانگ ۔۔۔ پنجیہھ سال پرانا کٹ ورک دا سیٹ سرہانے کشن کڈ کے ای مکمل کر لیواں تے بڑی گل اے ۔۔ ۔ جیدی بیڈ شیٹ میں دو دناں چ بنالئی سی باقی رھندا رہ ای گیا خورے کتھے پیا ہونا ملے گا تے تصویر شیئر کراں گی ۔۔۔ مسئلہ پتہ کی اے ھن کڈھائیاں کٹ ورک بیڈ شیٹس مینوں چبھدیاں نے سمپل کاٹن از دا بیسٹ آپشن فار می جیویں جیولری چبھدی اے امی جی نے کہہ کہہ کے کن نک تے ہتھ بوچے نہ رکھیا کر ۔۔۔ زبردستی عادت پوائی ھن انہاں دی یاد چ کوشش کرنی آں عمل کراں کہ کم ازکم اک ہتھ چ کجھ پائی رکھاں تے نک کن وی نہ پایا کجھ تے بند ہوجانے گا ۔۔۔ نکے ہندیاں کنے دکھ نال ونہوائے سی۔۔
میں کناں دی سٹوری تے لخی سی ۔۔۔نک دی وی گھٹ نئیں اردو چ لخنی آں
نجمہ وی پڑھے گی۔۔۔ ہاں تو نجمہ بوا سودن نے ہم دونوں کے کان تو کوکو کی اماں سے بندھوا/ چھدوا دیئے تھے ناک رہتی تھی
حسن آرا اور بھابی کی بہنیں بھتیجیاں مہمان آئی ہوئی تھیں بھتیجی ( کیا نام تھا اسکا تم بتانا ) دونوں کھیلتے کھیلتے میرے پیچھے پڑگئیں کہ ہمارے کان بھی بندھوا دو جہاں سے بوا نے تمہارے بندھوائے تھے۔۔۔ ہم کوکو کی اماں کے گھر گئیں وہ کراچی تھیں ۔۔۔ تمہیں یاد ہے خالہ باتی کی پچھلی گلی میں (نام مجھے یاد نہیں آرہا عباس تھا بھائی کانام کیا تھا ایک بہن اس کی کان بیندھتی تھی) میں ان کو وہاں لے گئی وہ مجھے دیکھ کر کمرے سے صحن میں آگئیں تمیز سے سلام کیا آنے کا مدعا بیان کیا کہ یہ اماں مینا کی مہمان ہیں کراچی سے آئی ہیں کان بندھوانا چاہتی ہیں
“اچھا ۔۔اچھا میں ابھی لائی”
وہ کچھ دیر میں سوئی میں دھاگہ ڈال کر لے آئیں ۔۔۔ سوئی دھاگہ دیکھ کر حسن آرا اور اس کی بھتیجی دونوں بھاگ گئیں ۔۔۔ سوئی دھاگے والی حیران میں شرمندہ اور پریشان
“اے ۔۔لو یہ تو بھاگ گئیں میں یوں ای اتی مشکل سے سوئی دھاگہ ڈھونڈ کے لائی”
میرے ‘اخلاق کی انتہا ‘ نوٹ کرو
میں نے خوامخواہ بے وجہہ بلا ارادہ شرمندگی سے بچنے کے لئے اپنی ناک پیش کر دی بچپن سے آج تک اس اخلاقی مظا ہرے پر میں فخر محسوس کرتی ہوں کہ انتہا تھی مجھ میں اخلاق کی اتنی کم عمری میں ۔۔۔
کہاں تو کان بندھوانے پر ناگن ڈانس کیا تھا کہاں اخلاق کی ماری بے چاری نے ناک خود پیش کردی ۔۔۔ دل چاہ رہا تھا ناگن ڈانس کروں مگر بھرپور اخلاق کا مظاہرہ کیا
اور بھگوڑیوں کو کیا کہوں کہ بس ڈر گئیں
“میری ناک بیندھ دیں “
نہ ماں کی ناک بندھی ہوئی نہ بڑی بہن کی ۔۔۔
وہ خوش ہوگئیں اور میری پیاری ننھی سی ناک بندھ گئی ۔۔۔ روئی نہیں جیسے کان بندھوانے میں دھماچوکڑی مچا کے روئی تھی اور بوا کی ڈانٹ بھی کھائی تھی ۔۔۔ جس سائیڈ سے ناک بندھی الٹی سائیڈ ، الٹی آنکھ سے ایک موٹا سا آنسو ٹپکا درد کی شدت سے ۔۔۔ پھر ناک میں دھاگہ ڈل گیا ۔۔۔ گھر آئی امی باجی بہت حیران ہوئیں اور کچھ کچھ خوش بھی ۔۔۔ کہ دونوں کی بندھی بندھائی ناکیں بند ہوگئی تھیں۔۔۔ ابو جی بحرین سے آئے تو تجھے پتہ ہے میں لاڈلی تو تھی ہی ۔۔ امی باجی نے مجھے پڑھا رکھا تھا ابو آئیں گے تو سونے کا کوکا لے کر دیں گے (خوش ہوکر ہاہاہا ) ابو جی آئے تو میں نے کہا مجھے کوکا لے کے دیں وہ کچھ گولڈ سنارے کو دے آئے ایک انگوٹھی ایک کوکا اور باجی کی بڑی اور میری چھوٹی بالیوں کا ۔۔۔
بن کے آیا تو کوکا میں نے مٹکا لیا امی باجی حسرت سے دیکھتی رہ گئیں امی جی کی تو ساری زندگی بے بندھی ناک رہی ۔۔ باجی کی شادی سے پندرہ دن پہلے بندھوائی تھی شائید ۔۔۔ انگوٹھی چھوٹی بن گیئ نہ باجی کو آئی نہ امی کو ، مجھے گولڈ کی انگو ٹھی بھی مل گئی ۔۔۔ اور چھوٹی بالیاں بھی جن کی ایک بالی میں نے کچھ بڑی ہوکر نہاتے سمے پانی میں بہادی تھی ۔۔۔ کان سے اتر کر پانی میں گرگئی میں بہتے پانی میں اس وقت تک اس کا لہراتا ڈانس دیکھتی رہی جب تک وہ باتھ روم سے نکل کر آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئ ۔۔۔۔ بالی گئی سو گئی مگر یقین مانو وہ بہت خوبصورت منظر تھا کہ ایک بالی پانی مین کتھاکلی کرتی بہے جارہی ہے ۔۔۔ اچھا ہوا میں نے وہ منظر دیکھا آج بھی میرے خوبصورت مناظر کی فہرست میں شامل ہے دو ٹکے کی بالی ہمیشہ کے لئے ایک خوبصورت منظر تشکیل دے گئی ۔۔۔ واٹ اے بلیسڈ سین واز دیٹ ٹو واچ دا ڈانسنگ گولڈ ان واٹر ۔۔۔ ہاہاہا
اب دوسری بڑی بالی کا سن لو باجی کی شادی میں جھمکے بندے پہناتے سمے امی نے مجھے بلایا اور باجی کے کان سے اتری بڑی بالیاں مجھے پہنائیں خوشی ہوئی باجی کو چھاج بھر کے سونا ملا ہے تو مجھے بھی بڑی بالیاں مل گئیں ۔۔۔ شادی بارات کا گھر ، میں رات کو برابر والے کرائے داروں کے گھر سوئی جہاں بہت سے ہمارے مہمانوں کے بستر لگے ہوئے تھے میں صبح اٹھی۔۔۔ پتہ چل گیا ایک کان میں بالا نہیں ہے اتنی زحمت نہ کی آٹھویں کلاس میں تھی کہ بستر چیک کرلوں۔۔۔ سوچا امی بستر اٹھانے آئیں گی تو خود ہی انہیں مل جائے گی میں کیوں زحمت کروں۔۔۔ مہمانوں کا گھر نہ جانے کس نے اٹھائے کس نے جھاڑے ایک دن میں ہی کان کا بالا گما لیا
اور پھر کانوں سے بسی ہوکے بیٹھ گئی
امی باجی نے خود اپنے وقتوں میں گمائی ہوئی تھیں بالیاں کانٹے تو میرا بالی گم کرنا دونوں بار آرڈنری گیم آف دا بالی سمجھا گیا ۔۔۔ہاہاہا
اس وقت سونا سستا بھی تھا
یاد ہوگا کہ نہیں میں کبھی کبھار عید پر پہنا کرتی تھی سونے کی انگوٹھی جب سب ہی آرٹیفیشل جیولر ی پہن کے اتراتی تھیں میں سونے کی انگوٹھی پہ شو مارتی تھی ۔۔۔۔ ہاہاہا
دوسرے دن پھر وہ دونوں کرا چئیٹ مجھے دیکھ کر پچھتا رہی تھیں فرمائشیں کر رہی تھیں
“آج ہمیں لے چلو ۔۔۔ اب ہم نہیں بھاگیں گے”
نہیں بہن ۔۔اب میں نہیں جاوں گی میرے دونوں کان بھی بندھے ہوئے ہیں اور ناک بھی بندھ گئی ۔۔۔ اب میرے پاس کچھ نہیں جو میں اخلاقا سوئی دھاگے کے آگے پیش کردوں گی ۔۔۔ ہاہاہا
حسن آرا ملے تو میرا سلام کہنا

ہم لاڑکانہ میں تھے
پنجاب سے مہمان ہمیشہ اچانک ہی آتے فون / موبائل کا جھنجٹ تو تھا نہیں ٹرین پکڑتے پندرہ بیس گھنٹوں میں سامان لادے پنہچ جاتے
اللہ بھلا کرے بی بی کا۔۔۔
کسی بھی تھکے ہارے سامان لادے بھوکے کمھلائے گھر آئے مہمان کو دہلیز ٹاپنے نہ دیتیں ۔۔۔۔
جب تک بیرونی دہلیز پر خوشی نیک شگونی کا خوش آمدیدی تیل نہ چو ء لیتیں ۔۔۔جب تک تیل ڈھونڈ کر لایا جاتا دہلیز کے اس پار کھڑے مہمان اور اس پار میزبان خوشی سے کھڑے ہنستے جگمگاتے ہی رہتے دہلیز کے دونوں کونوں میں تیل ڈال کر مہمانوں کی اینٹری ہوتی اور ہم بچے حیرانی سے ساری کاروائی دیکھتے پھر گھر میں ملنے ملانے کھانے پکانے اور ہنسی قہقہوں کی گہماگہمی شروع ہوجاتی گھر آئے مہمان گھر کے فرد ہی بن جاتے اور مہینہ دو یا اس سے بھی زیادہ لازمی ٹھہر کر جاتے اور زن و مرد جو جس ہنر میں مہارت رکھتا مہمانی بھول کے وہ سارے کام نمٹا کے جاتا ۔۔۔امی جی کی نابینا دادی آتیں تو اور کچھ نہیں تو پانچ چھ ماہ میں وہ انگلیوں کی پوروں پر مروڑی ‘پوٹیاں والی سیویاں ‘ کا کنستر ہی بھر دیتیں ۔۔۔ اب تو مہمانی میزبانی سب ایک وقت کے کھانے تک ہی محدود ہوگئی ہے گاڑیوں میں فراٹے بھرتے آئے فراٹے بھرتے گئے کسی کو چھٹی نہیں کسی کا یہ کام کسی کی وہ مصروفیت ۔۔۔ اور سچی بات ہے آرام کے اتنے عادی اور عادتوں کے اتنے غلام کہ اب آرام اپنے گھر میں ہی ملتا ہے کہیں چلے جاو تو ذہن پہ واپسی ہی سوار رہتی ہے


مارفیس ہمارے گھر کا بلا اگرچہ آوارہ گرد ہوگیا ہے ہوش سنبھالتے ہی ، جس کی اسے بچپن سے تمنا تھی مگر چونکہ وہ بوائلڈ چکن کھانے کا عادی ہے تو ۔۔۔ پیٹ پوجا کے لئے باہر سے گھوم پھر کے میلا کچیلا زخمی پٹ پٹا کے گھر آجاتا ہے کھانا کھانے۔۔۔ گھر کے سب بچے اس سے پیار کرتے ہیں آرام کی غرض سے وہ آج کل میرے کمرے کے باتھ روم کے باہر ٹھنڈی جگہ پر سوتا ہے
دو دن سے ٹانگ تڑوا کے بری طرح پٹا ہوا ہے تو مستقل گھر میں قیام ہے
گھر کا سب سے بڑا بچہ ماشا اللہ محمد انس عمران بلال (یہ چار نام ایک ہی بچے کے ہیں جو پہلا بچہ ہونے کے باعث باپ نے محبتا اور عقیدتا رکھے ہیں جن پہ صاحب نام سخت بیزاری شو کرتا ہے انا وڈا ناں میرا اسکول چ لکھا دتا ) آتا ہے اسے گھر میں دیکھ کر خوش ہوتا ہے
“اوئے ۔۔۔ کتھے رہنا ایں توں۔۔ نسلاں ودھان دے شوقین ، کٹاں کھا کے آجانا ایں”
مجھے اس کی بات پر ہنسی آجاتی ہے اوری میرا لاڈ اس کے لئے چھلک جاتا ہے
“توں وی نسلاں ودھا لا سوھنیا۔۔۔ توں وی ویاہ کرلا”
وہ ایک دم چونک گیا میری اینٹری پر
“مینوں کوئی شوق نہیں ” نیم ڈپٹتے ہوئے
“اوہدی اپنی پروگرامنگ اے میری اپنی پروگرامنگ اے ۔۔۔ میں پاگل نئیں نسلاں ودھا کے اپنے گل سیاپا پاواں ” وہ سوشل سائنٹست بایولوجیکل سائنٹسٹ جو وہ اکثر بنا رہتا ہے اپنے مخصوص نکتہ ء نظر سے پاکستان اور دنیا کی بڑھتی آبادی بڑھتے معاشی مسائل اور عدم تحفظ کے معروضی حالات میں ۔۔ جو اکثر وہ مجھ سے ڈسکس کر چکا ہے شادی کے مذاق و موضوع پر چڑ چڑ کر ۔۔۔
نوجوان پھر مجھے دو جملون میں چپ کرا گیا شادی کی بات پر ۔۔۔ کیا بنے گا ان جینیس نوجوانوں کا جو وقت سے پہلے شادی کے آفٹر ایفیکٹس سے بھاگ رہے ہیں اور رہی ان کی پروگرامنگ وہ بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی طرح ہیومن کی بجائے روبوٹک سی ہوگئی ہے کہ اور سب ٹھیک ہے شادی نہیں کرنی ۔۔۔ دیکھیں کب وہ انسانی نارمل طرز عمل کی طرف پلٹیں
فی الحال تو یہ نوجوان ۔۔۔ نوجوانی کے نام پہ بٹہ ہیں اتنا کول اور پریکٹیکل الاماں ۔۔۔ ہاہاہا
اور ایک طرف پچھلی جنریشن کی اکثریت ادھیڑ عمر بوڑھے نوجوان ٹھرک باز ہیں جو ابھی تک مر مر جا رہے ہیں ۔۔۔
یہ تو کھلا تضاد یے لوگو انسانی نفسیات کا ۔۔۔ ہے کہ نہیں !؟


روز جو یہ چوتھائی کتاب میموریز آجاتی ہیں ان کا کیا کروں ؟ اب پانچ دن میں ایک کتاب کیسے چھپے ۔۔۔ہاہاہا
شبانہ بہت سی میری نئی تشکیل شدہ ویب سائٹ پہ ڈال دیتی ہے جہاں کوئی کم بخت ویو نہیں کرتا /کرتی
آپ لکھتے رہے آپ ہی ۔۔۔
وہ کیا شعر ہے غالب کا ؟ یاد نہیں آرہا
چلیں دوسرا لکھ دیتی ہو ں
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
گو اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
صحیح لکھا ہے نا
عرصہ ء دراز سے زیر مطالعہ کچھ بھی نہیں ۔۔۔
اب تو مارک زرق برق نے ہی جکڑ رکھا ہے ہر زن و مرد کو ۔۔۔ زوجہ و شو کو ، آپس سے چھڑا کر اپنے ساتھ ۔۔۔ہاہاہا
دوسرے آپ سب کو یقینا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ میری شاعری کی ساری اداسی ۔۔۔نثر میں آکر لامتناہی قہقہوں میں تبدیل ہوجاتی ہے فی الحال شاعری آرہی ہے میموریز میں تو اداسی سے گھبرانا نہیں کسی نے ۔۔۔۔ نثر کو آنے دو خود ہی ہنسی آجائے گی ۔۔۔ انجوائے ایوری موڈ آف یورز اینڈ مائن ۔۔۔ ہیپی

یہ کورین سنگرز گروپ بی ٹی ایس کا ایک سنگر ہے ( ۔۔۔۔۔۔ نام یاد نہیں آرہا) ہمارے لڑکیاں / لڑکے دادی (اللہ بخشے )سمیت اس گروپ کے فینز رہے ہیں ۔۔۔
ایک لڑکی نے آن لائن یہ کشن منایا اسکی پوری عزت و احترام کرتی ہے ۔۔۔ اگر میری جیسی کوئی بھولے سے اس پہ بیٹھ جائے تو نیچے سے کھینچ لیتی ہے
اسکا نام لے کر
جنمن پہ کیوں وزن ڈالا ہے ؟
Jin min پہ کیوں بیٹھی ہیں ؟
ہاں اس کو جپھی ڈال کر بیٹھنے کی اجازت سب کو ہے ۔۔ مگر جزبہ ء رقابت بڑھ جائے تو جپھی کے بیچ میں سے کھینچ لیتی ہے ۔۔۔۔اور خود آپ کے والا پوز بناکے بیٹھ جاتی ہے ۔۔۔ہاہاہا


شبانہ جب میری شاعری یا نظمیں پڑھتی ہے تو۔۔۔
“اف ۔۔۔توبہ ۔۔توبہ اتنا بڑا ڈرامہ “
(اداس ہیروئین بننے کا )
اور جب نثر پڑھتی ہے تو جل جل کے کہتی ہے
“اتنی شرارتی تو نہیں تھیں آپ ۔۔۔ہم نے تو ہمیشہ سنجیدہ ہی دیکھا ہے ۔۔۔ جھوٹ کیوں لکھتی ہیں کہ میں بہت ہنستی ہنساتی تھی ۔۔۔مسکراتے دیکھا ہے کھل کے ہنستے بھی کم ہی دیکھا ہے “
پر جب میرے زور زور سے قہقہے چھوٹتے ہیں تو اسے میری دل سے ہنسی پہ اعتبار آجاتا ہے
ہنسی کی بھی خوب کہی۔۔۔
لاڑکانہ میں بےبی میں اور ہماری خاصی چھوٹی بہن سی پڑوس کی دوست خاصی سمجھدار اور میچور بھی اکثر ہنسی کے فوارے اچھالتی رہتیں ۔۔۔ بےبی اور امینہ کی ہنسی سٹاپ نہیں ہو پارہی کسی بات پر ۔۔۔ میں اپنی گود میں ہی بے آواز لوٹ پوٹ ۔۔۔امینہ پریشان ہوگئی جب ان کی ہنسی رکنے کے بعد بھی سر نہ اٹھا
“اڑی ۔۔۔ ڈس تہ ڈس تہ باجی کھی چھا تھیو آ “
وہ سمجھی مجھے ہنستے ہنستے اعصابی کمزوری سے غش تو نہیں آگیا اچانک موٹی تازی کو ۔۔۔
بے بی نے اطمینان سے کہا
“ہل رہی ہے ۔۔۔منہ اٹھا کے دیکھو ہنس رہی ہوگی “
میرا منہ اٹھایا گیا ۔۔میرے وکھیاں چہرہ ناک منہ انکھ کان سب بے آواز ہنسی کا شہکار بنے ہوئے تھے۔۔۔
پھر اکثر وہ خود ہنس ہنسا کے میری بے آواز ہنسی کو میری ہی گود میں ابلتا ، ہلتا پڑے دیکھ کر خوب ہنسا کرتی تھیں
امینہ اور بے بی کا لوڈو کے حوالے سے بڑا ٹاکرا رہتا ۔۔۔ امینہ پکی پکروڑ بے بی خود بھولے سے گوٹیاں اس کے راستے میں آتے جاتے پٹوا کر روہانسی اور چڑچڑا جاتی کچھ لڑاکی بھی ہوجاتیں دونوں ۔۔۔ سارا دن ان کا یہی رولا رہتا لوڈو کھیلتے ۔۔۔ لوڈو کبھی آدھے میں اوندھی کبھی چڑ چڑائی لڑائی ۔۔۔ یاد ہے لوڈو کھیلتے سمےامی جی تک پوتے پوتیوں سے تو تو میں میں کر لیتی تھیں کہ یہ بھول کر کہ کھیل ہے اور ۔۔۔ اور اور ہماری لائبہ تو جب پہلی بار کھیلی تب اسے کھیلنا نہیں آتا تھا پہلی گوٹی پٹنے پر دھاڑیں مار مار کر منہ پھاڑ پھاڑ کر اتنا روئی اتنا روئی کہ سارے گھر کو وختا ڈال دیا کہ بے ہوش ہونے والی ہی ہوگئی ۔۔ سب لوڈو چھوڑ چھاڑ کر اسے سنبھالنے منانے شربت پانی پلانے لگے کہ رو رو کر بے مت ماردی سب کی
میری گوٹی ماری کیوں ؟
آخر میری گوٹی ماری کیوں ؟
اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے پستول سے اس کی گوٹی پہ فائیر کردیا ہو
بہت دیر لگی راضی کرنے میں۔۔
کھلاو تو مصیبت نہ کھلاو مصیبت گوٹی ماردو تو قیامت صغرا ۔۔۔ کھیلنا آتا نہیں اس کی گوٹیاں بھی چلاو۔۔ اپنی گوٹیوں سے بچاو بھی اور اپنی گوٹیاں خوامخواہ اس سے مرواو بھی جہاں اس کی مر رہی ہو اپنی مار کے خانے میں ڈال لو یا اوپر سے گن کر شرافت سے گزر جاو ۔۔۔ ایک ڈیڑھ سال اس نے گھر میں سب کا لوڈو کھیلنا حرام کئے رکھا ۔۔۔ لوڈو بچھتی شوقین دادی کی ایک دو کھلاڑی اور میدان میں لائبہ بھی چوتھے خانے کے سامنے براجمان۔۔۔ نہ ہو تو پٹکا ڈال دے گی کیا کھیلنا اور کھلانا اسے بہلانا ۔۔بلیک میلنگ گیم بڑی سادگی سے آن ہوجاتی ۔۔۔ سب کھیلتے اس کی گوٹوں کے اوپر سے بنا مارے گزر جاتے آخر میں اسے جتوا کر پھر خود جیتتے یا ہارتے۔۔۔تسلی سے لوڈو کھیلی جاتی اور لائبہ مسکرا کر کوئین آف دا لوڈو پلے بن جاتی ۔۔۔
اسی طرح کی ہلکی پھلکی نوک جھونک بے بی اور امینہ کے درمیان بھی رہتی لوڈو کھیلتے سمے ۔۔۔ مجھے خوف ہوتا اچھی بھلی فرینڈز ہیں کہیں مائنڈ نہ کرجائیں ۔۔۔ میں لاڑکانہ جاتی تو نہ چاہنے کے باوجود تیسرا کھلاڑی مجھے بھی بنا لیا جاتا ۔۔۔ میری ان کو بنا توڑ کی ہیٹ ٹرک ان پہ آج بھی قرض ہے مطلب تین بار مسلسل جیت گئی تھی بغیر ان کا توڑ ہوئے ۔۔۔ بہرحال ایک دن بےبی امینہ مسلسل نوکا جھونکی کرتے لڑائی کے قریب تھیں کہ ہارنے والی بےبی نے لوڈو موہدھی مار دی
امینہ روہانسی ہوکر
“قسم ہے جو اب کبھی کھیلوں”
میں لوڈو سے بیزار ایسے ہی کسی لمحے کے انتظار میں تھی شائید
امینہ اللہ کی قسم کھاو
امینہ اللہ کی قسم کھالو
تمہارا قصور نہیں تھا ۔۔۔ نہ کھیلنا آئندہ بے بی سے
اللہ کی قسم کھالو
میرے اکسانے پر ناعاقبت اندیش امینہ نے فورا قسم کھالی
“مجھے قسم ہے اللہ کی جو تمہارے گھر لوڈو کھیلوں”
شکر الحمدللہ ۔۔۔ روز روز کی جھنجھٹ سے جان چھوٹی میری لوڈو میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر بلکہ اتنی گیمنگ سے بیزاری ہوتی تھی
قسم جو کھائی امینہ نے تو
دل سے نبھائی مومنہ نے
ہزار ترلے منتوں پر بھی پھر کبھی نہ کھیلی
تین سال بعد ۔۔۔ اس کی برتھ ڈے پر ہم تیار ہوکر جب پڑوس میں اس کے گھر گئیں خوب خاطر تواضع کے بعد۔۔۔ دیکھا تو سامنے لوڈو کھلی پڑی ہے
“اچو تہ ھانی لوڈو کھیڈئون”
امینہ تم نے اللہ کی قسم کھائی تھی ۔۔۔ توڑ رہی ہے کیا؟
میں نے حیرانی سے پوچھا
نہیں ۔۔۔ ہم بہنیں گھر میں کھیلتے ہیں ۔۔۔ آپ کے گھر کی قسم کھائی تھی وہاں نہیں کھیلوں گی “
اوہ ۔۔اچھا مومنوں نے راستہ نکالا ہوا تھا ہیرا پھیری کا
پھر خوب بازیاں لگائیں اور پکی پکروڑ کھلاڑی سے بار بار ہار کر گھر کی راہ لی
بہت پیاری بچی ہے امینہ چھوٹی بہن ہے جیسے بالکل ہی شبانہ اور بے بی کی طرح ۔۔ اتنی زندہ دل لڑکی کبھی کبھار اس کی زندگی مسئلے مسائل پر بہت دکھی ہوجاتی ہوں ۔۔۔چڑچڑی سی ہوگئی ہے اللہ خوش رکھے اسے ۔۔۔اور مولوی شوہر کو واقعی گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی توفیق ایمان و ہدایت دے آمین نرا مسئلے مسائل کی پوٹ اور اسلامی ڈرامہ ، پریکٹیکلی زیرو ریسپونسبلٹی ۔۔ اللہ معاف کرے
اللہ امینہ کو سلامت رکھے آباد رکھے اور اس کی زندگی خوشی سکھ سکون اور مرادوں سے بھر دے آمین ثم آمین


نفاست کا یہ عالم ہے کہ مسواک سنت بن گئی
دندان مبارک موتیوں کی طرح آبدار چمک دار ۔۔۔
پانچ وقت منہ ہاتھ دھونا (وضو کرنا ) فرض ہوگیا
اور نماز تو عبادت کے ساتھ ساتھ پنج وقتہ ایکسر سائیز اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی عبادت بھی فٹنس بھی
قبلے کی سمت متعین ہے کہ خوامخواہ اختلاف بازی نہ ہو
صفائی نصف ایمان قرار پائی
نصف ایمان صفائی ۔۔۔
اب پیرو کار جہالت کا جو مظاہرہ کریں اللہ انہیں ہدایت دے اسلامی نہیں تو سوک سینس ہی دے دے
راستے کے کانٹے پتھر ہٹانا ثواب عین نہ کہ راستوں میں گند بکھیرتے چلو
کسی کے گھر جاو تو تین بار آواز دو اجازت طلب کرو ۔۔۔ جواب نہ ملے تو واپس ہوجاو (شائید کہ مرد گھر میں موجود نہ ہو)
محفل میں جب داخل ہوجاو تو ایک دوسرے کے سر ٹاپتے آگے نہ جاو جہاں جگہ ملے بیٹھ جاو ۔۔۔ اسی طرح نماز کی صفوں میں بھی جہاں جگہ ہو کھڑے ہوجاو ۔۔۔۔
جب بھی کچھ پیش کیا جاتا ہے تقسیم ہوتا ہے سب میں ، داہنے ہاتھ سے شروع کرکے ۔۔۔ اور اگر کسی وجہ سے بائیں سے شروع فرماتے ہیں تو داہنی طرف والے سے اجازت لے کر ۔۔۔ مختار کل ہیں تحفہ آپ کو ملا ہے جس سے چاہیں شروع کریں آج تک پا ڈھائی نفسا نفسی کا دور ہے مگر وہ چودہ سو سال پہلے تہزیب و تمدن احساس ومروت کی داستان کا ایک مثالی کردار پیش کر رہے تھے اپنے اسوہ ء حسنہ سے اور امی ہونے کے باوجود اپنی آفاقی علمی لدنی بصارت و بصیرت سے رہنمائی فرما رہے تھے
ایسے جاہلانہ دور میں بھی وہ جس کو بھی کوئہ شے دیتے ہیں داہنی طرف سب سے قریب بیٹھے کا استحقاق ملحوظ رکھتے ہیں
آپس میں جہاں بھی ملو سلامتی کی دعا سے ملو ‘اسلام علیکم ‘کہہ کے سنت کے مطابق
‘ وعلیکم اسلام ‘جواب دینا فرض ہوگیا
جب دنیا میں کوئی تصور نہیں صفائی ہائی جین کا ۔۔۔
غسل جنابت فرض ہوا
عورتوں کی پاکی غسل کے بغیر نہین ہوگی
مخصوص ایام میں علیحدگی رکھو کہ نازکی کا تقاضا ہے اور نفاست پاکیزگی اور ہائی جین کے لئے بھی ضروری ہے
عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں
اپنی کھیتی کا تصور کریں اس کا لہلانا سر سبز ہونا پھل پھولدار ہونا کیا خوش کن ہے اور کتنی توجہ اورمحنت کا متقاضی ہے کہ اس کے دیکھ بھال کرو اسی طرح جیسے اپنی کھیتی کی کرتے ہو اس کو دیکھ کر خوش ہوا کرو اس کا خیال رکھو
تم آپس میں ایک دوسرے کا لباس ہو
گھر میں داخل ہو تو چہرہ مسکراتا ہوا ہو کہ گھر والے دیکھ کرمطمئن اور خوش ہوں نہ کہ ڈانٹ پھٹکار اور غراتے ہوئے خراب موڈ کے ساتھ گھر میں داخل ہو کہ سارے سہم جائیں کہ آدم بو آدم بو کرتا جن آگیا ہے گھر
ایک دوسرے کا پردہ رکھو ہر وقت ہر انداز سے ہر اچھی بری بات میں ۔۔۔ ایک دوسرے کے عیب اچھالتے نہ رہو بلکہ سب کے سامنے ڈھک دو
غرضیکہ کیا کیا کہا جائے
ہر لفظ موتی ہر انداز پیارا دانا اور مدبرانہ قدم قدم پہ رہنمائی کرتا ہوا ( صلو علی الحبیب)
جو ہاتھ پکڑ کے اپنی بات کرتا ہے اس سے اس وقت تک ہاتھ نہیں چھڑوا تے جب تک اس کی تسلی ہوجائے اور وہ خود ہاتھ چھوڑ دے کوئی بات کرتا ہے تو صرف سر یا منہ گھما کے نہیں سنتے ۔۔۔ پورے وجود سے اس کی طرف گھوم جاتے ہیں اور توجہ دلجمعی سے سنتے ہیں کہ جو بھی وہ کہنا چاہتا ہے اس کی تشفی ہوجائے کہ اس کی سنی گئی ہے
واللہ کیا کیا نہ انداز دلربائی اور شکیبائی تھے ان کے صلو علی الحبیب


جنگوں اور غزوات کا پوچھتے ہیں جنگ بدر ہو خندق یا احد ۔۔۔ وہ سب آپ (صلعم) کے گھر مدینہ لوگ ان سے لڑنے آئے ان کی تیاری تھی مدافعتی مزاحمتی جنگ لڑی گئی جیت بھی ہوئی حسب موقع ہار بھی ۔۔۔ پھر فتح مکہ ہے تو بغیر کسی جنگ کے بغیر ایک قطرہ خون بہائے ۔۔۔ مکہ بھی مکہ کے دشمن لوگ بھی سایہ ء نبوت کی عاطفت میں آگئے ۔۔۔ ( سبحان اللہ )
پھر وہ دور ہی جو جہالت اور جدال سے پر تھا ہر دوطرفہ دشمن کی اطراف سے ۔۔۔ کچھ چیزیں ناگزیر تھیں اور شائید اب بھی ہیں اگرچہ ۔۔۔۔ افسوس کا مقام ہے یقینا
ورنہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ٹھہرایا گیا ۔۔۔ اس میں ہندو مسلم یہودی عیسائی کی مشرک لامذہب کسی کی کوئی تخصیص نہیں انسان کے بارے میں کہا گیا ہے
اگلی تاریخ میں جو خوں ریزی ہوئی وہ کرنے والے ہی اسباب جانتے ہوں گے
(واللہ اعلم بالثواب)


رات خواب میں روضہ نبوی صلو علی الحبیب کے گیٹ نمبر 37 کی طرف روڈ پہ کھڑی تھی ۔۔۔
سو یہی سبب بنا ہے کہ صبح صبح اپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد تڑپانے لگی ۔۔۔
اب خواب یاد آیا تو سوچ رہی ہوں


عورت پسند ہے
شہد پسند ہے
خوشبو پسند ہے
۔۔۔۔ کوئی بتاو کہ کون بدذوق انسان ہوگا جسے یہ تین چیزیں پسند نہ ہوں ؟
وہ بشر تھے شرف بشریت تھے
عورت زمین کی سب سے خوبصورت تخلیق۔۔۔ اور جو خود اس محبوب کبریا پر دل وجان سے فدا ہوں تو کیوں نہ ان کی زوجیت کا ارمان محبوب کااحسان بن کر ان کی خوش نصیبی میں ایسا اضافہ کردے کہ وہ اپنے نصیب پہ نازاں رہ جائیں چاہے خود سے بڑی بی بی خدیجہ ان کی انتہائی غمگسار مددگار محبت کرنے والی بیوی ہوں یا انتہائی کم عمر دیوانی ء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی بی بی حمیرا عائشہ ۔۔۔ اعتراض کرتے ہیں کرنے والے نو تھیں دس تھیں گیارہ تھیں ۔۔۔ سو واٹ ؟
یہاں تو عام آدمی ستر سے کم پہ راضی نہیں جائز یا ناجائز ۔۔۔
انہوں نے تو چن کر فیصلے کئے کسی کو محبت کا مان بخشا
کسی کی عقیدت کا بھرم رکھا
کہیں بیوگی اور بے چارگی کو ملحوظ خاطر رکھا
کہیں سرداری کی نسبت کا بھرم رکھا
کہیں طلاق یافتہ کے باپ کی شکایت پہ غور کیا ۔۔ اور فرمایا جو آپ چاہ رہے ہیں اس سے بہتر بر آپ کی صاحبزادی کو ملے گا اور اپنی رحمت سے ان کی توقع سے بڑھ کر ان سے رشتہ قائم کر لیا
کسی کی دلجوئی کی
کسی کی اشک شوئی کی
کسی کی ذمہ داری اٹھائی
ہر دلجو ء غم زدہ دل سے دلداری نبھائی ۔۔۔
مگر حسین و جمیل ذہین عائشہ کو اپنے دل کی سرداری دے دی
گیارہ ۔۔۔ ارے بابا وہ خود فرماتے ہیں
عورت شہد اور خوشبو مجھے پسند ہے
سینکڑوں میں صرف گیارہ کے نصیب یاور ہوئے کہ وہ گھر و در مصطفی کی ہوئیں ۔۔۔ اور ایسے وقت میں جب سو سو عورتیں مرد کی عادت ہوں ان کی تعداد محدود کی گئی چار تلک ۔۔۔ وہ بھی زور نہیں زبردستی نہیں اک رعایت ہے کہ زنا سے بہتر ہے انصاف کا تقاضا اگر مشکل ہو تو ایک پر ہی اکتفا مناسب ہے
اپنے لئے گیارہ امت کے لئے چار ۔۔۔
بھئ محبوبیت کا جو درجہ ہے یہ گیارہ نمبر بھی کچھ کم سا ہے ۔۔۔میرے خیال میں اور سعادت ہے جتنی مناسب سمجھی ضرور ت سمجھی حالات کا تقاضا تھا پورا کر ڈالا ۔۔۔ ہاں محبت کے سب سلسلے سب سے بڑھ کر حمیرا عائشہ سے وابستہ تھے اور روح جوان رہتی ہے ہمیشہ کبھی چھوٹی بڑی نہیں ہوتی یہی سچ ہے ۔۔۔ روح کا ہان اک جیسا ہو تو عمر محض سالوں کی گنتی ہے
میں ان کی ہر بات محبت سے سوچتی ہوں محبت سے سمجھتی ہوں ۔۔۔ ان کی ہر رمز کے کھلنے کی آرزو رکھتی ہوں
اللہ مجھ پر جمال مصطفی و اسوہ حسنہ کی رمزیت آشکار کردے ان کے مقام خاص محبوبیت اور محبت کی طرح ہی آمین ثم آمین
ایک لاوارث بچے بظاہر غلام کو پیار سے بیٹا بنالیا زید بن محمد کا نام دے دیا
دوسرے بلال حبشی کو مصیبت و مشقت سے چھڑا کر پہلے موذن ء اسلام کی سعادت بخشی
بلال آپ اذان ربی دو ۔۔۔ سب تمہاری تھتھلی آواز اور محبت بھری پکار پر قطاریں باندھ کر جوق در جوق آئیں گے چاہے وہ سردار ہوں کندھار ہوں یا جو بھی ہوں تم پکارو یہ اعزاز ہے تمہارا ۔۔۔سب آئیں گے
جیسا خود پہنو ، اپنا خیال کرنے والے مددگار غلام کو پہناو جیسا خود کھاو اسے کھلاو ۔۔ گھر کا فرد ہی سمجھو ۔۔۔انتہا کہ بچہ ہے تو بیٹا ہی بنالیا برسر عام نام بھی دے دیا اپنا کہ میرے نام کے ساتھ نام رکھ کر پکارا جائے جیسے سب اپنے بیٹوں کو پکارتے ہیں ۔۔۔ نام الگ کرنا بھی اس کے حقیقی والد کی خواہش کے پیش نظر کیا ۔۔۔ اپنے اعلی خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی سے شادی کروادی ۔۔۔۔ اور پھر اس لڑکی کی غلام سے نہ نبھا سکنے پر زید کی اجازت و مشورے خوبصورت زینب کے احساس کمتری کی دلجوئی یوں کی کہ اس کو دنیا کے سب سے بہترین انسان کی رفاقت کا اعزاز بخش دیا اور یہ بھی بتایا کہ حرمت صرف خون کے رشتوں پر قائم ہوگی منہ بولے یا متنبہ اس سے ہٹ کر ہیں
میں محبت سے کہتی ہوں سب کچھ ۔۔۔ جس نے سننا ہے پڑھناہے محبت سے پڑھے ۔۔۔صلو علی الحبیب


حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں کرنے کو دل چاہ رہا ہے آپ بھی کریں میں بھی کرتی ہوں کہ وہ میرے لئے محبوبیت کے اعلی ترین درجے پر فائز ہیں میں ان سے بحیثیت ایک مکمل انسان عشق میں مبتلا ہوں اور جب انسان کسی عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو دل چاہتا ہے اس کی بات کئے جائے اس کی ہر ادا خوبی نظر آتی ہے ہر بات میں حسن کا پہلو ہر لفظ شکر پارہ ہر قدم پہ دل وارا ۔۔۔ جاں فدا ۔۔ فدا امی ابی یا رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم
ایک تو میں آپ کو بتادوں وہ اتنے حسین ہیں اتنے حسین ہیں بشری طور پر کہ انہیں دیکھ کر چاہے خواب میں ہی دیکھیں آپ کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اس سے زیادہ حسن کا تصور ممکن نہیں ۔۔ یہ دنیا کا آل ٹائیم حسین بشر ہے اتنا کہ آپ کی عاشقی اس حسن وجمال کے کمال پر دل تک رقت سے لبریز ہوجائے اور آپ کو سمجھ نہ آئے کہ محبوبیت کی اس کمال درجہ غائیت کو آپ کس طرح خراج پیش کریں کہ حق ادا ہو ۔۔۔۔ سبحان اللہ
میں نے انہیں اسی رنگ میں پایا ہے
پھر ان کے اخلاق حسنہ اور محبوبانہ ادائیں ۔۔۔۔ شہادت کی انگلی سے ناخن کاٹنا شروع کرکے سیدھے ہاتھ کے تراشتے ہیں چھنگلی تک ، پھر کمال ادا سے الٹے ہاتھ کی چھنگلی سے شروع کرکے انڈیکس فنگر پھر انگوٹھے ۔۔۔ ناخن تراشنا بھی ادائے دلبری ٹھہری پھر کچھ نوش فرماتے ہیں تو تین انگلیاں تہزیب سے لقمہ اٹھاتے ہیں اپنے سامنے سے لیتے ہیں اکڑوں بیٹھتے ہیں زیادہ پسرتے نہیں کھانے پر کہ سب کو جگہ مل جائے بقدر ضرورت۔۔۔
کھاکر انگلیاں بھی صاف کرتے ہیں کہ ذرہ ذرہ رزق ہوجائے ۔۔۔ مجھے تو ہاتھ سے کھا کر نمے نمے منہ سے انگلیاں صاف کرتے لوگ آج بھی بھاتے ہیں ۔۔۔ پانی پیتے ہیں تو غٹا غٹ نہیں ، نفاست سے جائزہ لیتے ہیں بسم اللہ سے شروع کرتے ہیں پہلا گھونٹ ۔۔ کم ازکم تین بار منہ سے الگ کرکے سانس پانی سے باہر لیتے ہیں پھر شکر الحمد للہ کرکے پانی کی نعمت کو سراہتے ہیں اور شکر ربی ادا کرتے ہیں
دستی پسند فرماتے ہیں گوشت کی وہ قسم جو با ذوق کھانے والے آج تک لاجواب مانتے ہیں دعوت ملے تو محبت سے قبول کرتے ہیں کوئی ساتھ ہو تو اسے دعوت کے شوق میں چھوڑ نہیں جاتے بلکہ اس کے لئے بھی اجازت طلب کرتے ہیں اور اسے اپنے ساتھ لے جاکر شریک طعام کرتے ہیں ۔۔۔ محبت سے پیش کرتے ہیں سیر ہوکر کھانے کاکہتے ہیں
چلتے ہیں تو یوں تیز قدم جیسے ڈھلوان اتر رہے ہوں نظر ڈالتے ہیں یعنی چشم سیاہ سرمگیں دراز پلکوں پرکشش تیج بھری پرنور نظر کی بات ابھی نہیں کروں گی کہ پھر میری بولتی بند ہوجائے گی
آج اتنا ہی پھر بات کریں گے
صلو علی الحبیب وسلمو تسلیمات
میرے رب کا شکریہ کہ آپکی امت میں پیدا کردیا
ورنہ جانے کہاں کہاں بھٹک کے آپ تک پہنچتی ۔۔۔ بدنصیبی ہوتی کہ اگر پہنچ ہی نہ پاتی ۔۔۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا جس روح نے جس تک جانا ہوتا ہے ڈھونڈ ڈھانڈ کے آس تک پہنچ ہی جاتی ہے بس لگن سچی ہو اور دل میں ایمان ہو
اللہ کا شکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوں آپ صلعم کی امت میں سے ہوں اللہ خیر سے رکھے رحمت کے سائے میں رکھے آمین ثم آمین
شکر الحمد للہ
جزاک اللہ خیر کثیرا
اللہ آسانیوں میں رکھے آمین

زرتاج گل ۔۔۔ آفیشل سے فرینڈ ریکوئیسٹ تھی ایکسپٹ کرلی آخر مریم نواز کو بھی تو ایڈ کر رکھا ہے ۔۔۔ اب دونوں کی پوسٹیں شئیر کر کرکے مقابلہ حسن کرایا کروں گی
ویسے میرے ذاتی خیال میں مریم زیادہ حسین ہے اور کمپیٹنٹ بھی شائید ثابت ہوجائے اپنے پیچھے دو رہنمائی کرتی قدآوار سیاسی شخصیا ت اور کچھ اپنی ذاتی صلاحیتوں سے ۔۔۔ وقت بتائے گا یہ !
چھوٹا سا میرا بچہ شہباز عمران جب مریم نواز کے حسن سے ٹی وی پر متاثر ہوا تو ۔۔۔
پہلا متاثر وہ ترکش ایکٹریس بھیتر کا ہے ۔۔کہ ڈرامہ دیکھ کر باپ سے کہتا تھا
بھیتر سے شادی کرکےمسٹر عمران کی بجائے مسٹر عدنان بن جاو اور اسے اپنے گھر لے آو ۔۔۔یہ پہلی اور آخری سوت تھی جو وہ اپنی ماں پر لانے پر راضی تھا باپ گانا گا کے چڑاتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں شہباز کی بہنا ہے
“نہیں ” چیخ کے کہتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں ندیم (ماموں) کی بہنا ہے (یعنی شہباز کی اماں)
شہباز آہستگی سے’ نہیں ‘ کہتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں عمران کی بہنا ہے (یعنی پھپھو)
شہباز صاف ‘کک’ کرکے نہیں کرتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں پیکر کی بہنا (بھیتر ترکش ایکٹرس ) ہے
ننھے شہباز کی آنکھیں چمک جاتی ہیں چہرہ کھل کے گلاب ہوجاتا ہے
“ہاں “
ذرا ٹین ایج میں آیا تو اپنا ارادہ ظاہر کردیا باپ کے لئے سجیسٹو دوسری بیوی پر آپ بدنیت ہوگیا
“میں بھیتر سے شادی کروں گا “
اچھا بابا ٹھیک ہے بچپن کا عشق ٹین ایج میں بھی قائم ہے پتہ چل گیا
” پہلے پڑھ تو لو”
“ہاں ” رٹے بازی شروع ہوگئی ہل ہل کے
پھر مریم نواز ٹی وی پر اپنی حشر سامانیوں سمیت نظر آنے لگی باپ کے ساتھ ‘مجھے کیوں نکالا ‘جلسے جلوس میں
حسرت آمیز آرزو اور تجسس سے پوچھا ٹین ایج شہباز نے
یہ کس سے شادی کرے گی ( اتنی خوبصورت)
ٹین ایج شہباز کی دلی آرزو اور اشتیاق نے مجھے مسکرانے پر مجبور کرگیا
“بیٹا ۔۔۔ یہ شادی شدہ ہے اس کی بیٹی بھی شادی شدہ ہے اور یہ نانی اماں ہے “
“نئیں جھوٹ بول رہی ہیں آپ”
(میرا ننھا سا دل دہلانے کو )
“کسی سے بھی پوچھ لو اپنے پاپا سے پوچھ لینا اماں سے پوچھ لو جس سے مرضی پوچھو یہی سچ ہے”
شہباز کی آنکھوں میں نم حیرانی اتر آئی
“کس سے کی ہے شادی ؟”
“ہے ایک کیپٹن صفدر ( بونگا سا)”
“اس سے کیوں کی ؟”
“اس وقت یہ خود بھی بونگی (مگر بہت دلکش حسینہ) تھی ۔۔۔”
میں نے ہنس کر اس کی معلومات میں اضافہ کیا
کل صاحبزادے ہمیں بینک لے کر گئے راستے صاف ستھرے بہتر دیکھ کر اور ذرا فروٹس وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھ کر بے ساختہ نواز فیملی اور وزیر اعلی پنجاب کی کارکردگی تعریف ہونے لگی کہ پنجاب کا تو پتہ نہیں لاہور انہی کے دور میں بہتر ہوتا ہے
شہباز بھی زور وشور سے ہاں میں ہاں ملانے لگا ہاں مریم نواز بہت اچھی وزیر اعلی ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔
مجھے کچھ شک گزرا
“مریم جیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو”
“دولت مند ؟ ۔۔۔ہاں” چونک کربرجستگی سے دولت مند کا معیار مقرر کیا
اب اس کا معیار خوبصورتی نہیں دولت ہے جان کر خوشی ہوئی کہ بڑا اور سمجھدار بھی ہوگیا ہے
“ہاں دولت مند بھی حسین بھی “
“ہاں ۔۔۔ تو اور کیا چاہئے”
“چل اللہ تیرا بیاہ شریف فیملی جیسی کسی امیر فیملی کی حسین ترین لڑکی سے کرائے ۔۔۔ آمین”
اپنے بچے کو دل سے دعا دی !!
خوش ہوگیا میرا من موہنا جان من ۔۔۔ بچے راضی تے میں راضی میرا رب راضی ۔۔۔اللہ اللہ ۔۔ اللہ خیر دے وقت لہیاوے میرے سارے بچیاں نکیاں وڈیاں دے لئی ہمیشہ تے خوش تے آباد رکھے جین جوگیاں نوں ، سلامت رہیں سب آمین ثم آمین


یہاں میں نے اردو شعر میں سندھی اسٹائل میں فرحت کا استعمال کیا ہے ۔۔۔۔ فرحت ویسے ہم سب کی بچپن کی دوست تھی ۔۔ ہے ماشاللہ پاکستان سے باہر کہیں مختصر اور کبھی کبھار کے رابطے میں ۔۔۔ پکی پکی مدرست المعلمہ ء اسلامی بن چکی ہے جوانی شبنم کی ایکٹنگ سے چورا چور تھی آج تک شبنم کو دیکھیں تو شبنم نہیں لگتی ف ر ح ت لگتی ہے آخری بار جب بات ہوئی بے بی کے موبائل کے تھرو ۔۔وہ میرا نمبرمانگنے پر بضد تھی ڈرتے ڈرتے دے دیا کہ بے بی کے نمبر پر جو ایک گھنٹہ اس نے مجھے مدرساتی اسلامی حجاباتی عبایاتی فلسفیاتی صوفیاتی اور روحانیاتی لیکچر دیا ۔۔۔ وہ میرے سر سے گزرا جو گزرا مگر اس کا بیشتر حصہ میں پہلے سے جانتی تھی بلکہ اس کی معلومات میں ‘اضافیاتی ‘ دخل اندازی بھی کرسکتی تھی مگر ۔۔۔
ہم چپ رہے ہم ہنس دئیے منظور تھا پردہ ترا ،
پھر اس نے نمبر نمبر مانگنے کی گردان رکھی کہ روزانہ تمہیں لیکچر دیا کروں گی ۔۔۔ اس نے کچھ اس طرح اپنے ارادے کا اظہار کیا کہ تکوین کائنات میں شائید اتنے سالوں بعد دوبارہ بات ہونے کا مقصد ہی یہ ہے مجھے تمہاری رہنمائی کرنی ہے اور تمہیں عبایہ سلوانے پر مجبور کرنا ہے ۔۔۔ میں ڈر گئی سہم گئی سوچنے لگی بیبیوں کی سنت کے مطابق میں اکثر اندر باہر جاتے سمے چادر کا استعمال تو کرہی لیتی ہوں چہرہ اگرچہ نہیں ڈھکتی کہ ڈھلتی عمر کی دلکشی
کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا نظر رکھ کے یا نظر لگا کے ۔۔۔ جوانی میں یہ اپنی سادگی و کم روئی کی وجہ سے یہ جزباتی ہیجان انگیزی کا کارن نہ بنا تو اب تو کم و بیش پیش آمد بڑھاپے کی بیچارگی سے نقاب سا پڑھا رہتا ہے اندرون مزاج کی ساری شوخیوں اور رعنائیوں پر ۔۔۔
ڈر گئی میری تے مت ماری جانی اڈے وڈے وڈے مدرسیاتی رٹیاتی لیکچر تے ۔۔۔ جدوں کہ میں تے اس علم لدنی چ ایدے سامنے پی ایچ ڈی دی ڈگری دا درجہ آپ رکھنی آں ۔۔۔ ہاہاہا
اونہوں بڑی شکایت رہی جدوں وی بعد چ گل ہوئی ۔۔ تیرا نمبر مینوں نئیں ملدا (میں تیری رہنمائی کرنی سی )
میرا کی دوش ۔۔ مرضی میرے رب دی
جہاں بھی ہو سلامت رہے ہماری پیاری سی فرحت ۔۔۔ ہمیں شبنم کے روپ میں بہت بھلی لگتی تھی ۔۔ اللہ ایمان ایقان اور بزرگی میں اضافہ کرے آمین ثم آمین اس شعر میں فرحت لفظ آیا تو اس کی یاد بھی ذہن پہ اتر آئی سلامت رہے خوش رہے جہاں بھی ہو اور کامیابی سے مدرسہ چلا رہی ہو آمین ثم آمین

دل پہ ہول ہے رکے ہوئے کاموں کا
جتنی جلدی ہوجائیں ، فرحت ہو

زرتاج گل ۔۔۔ آفیشل سے فرینڈ ریکوئیسٹ تھی ایکسپٹ کرلی آخر وزیر اعلی مریم نواز (آفیشیل) کی ریکوئیسٹ بھی تو مانی تھی ۔۔۔ اب دونوں کی پوسٹیں شئیر کر کرکے مقابلہ حسن کرایا کروں گی
ویسے میرے ذاتی خیال میں مریم زیادہ حسین ہے اور کمپیٹنٹ بھی شائید ثابت ہوجائے اپنے پیچھے دو رہنمائی کرتی قدآوار سیاسی شخصیا ت اور کچھ اپنی ذاتی صلاحیتوں سے ۔۔۔ وقت بتائے گا یہ !
چھوٹا سا میرا بچہ شہباز عمران جب مریم نواز کے حسن سے ٹی وی پر متاثر ہوا تو ۔۔۔
پہلا متاثر وہ ترکش ایکٹریس بھیتر کا ہے ۔۔کہ ڈرامہ دیکھ کر باپ سے کہتا تھا
بھیتر سے شادی کرکےمسٹر عمران کی بجائے مسٹر عدنان بن جاو اور اسے اپنے گھر لے آو ۔۔۔یہ پہلی اور آخری سوت تھی جو وہ اپنی ماں پر لانے پر راضی تھا باپ گانا گا کے چڑاتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں شہباز کی بہنا ہے
“نہیں ” چیخ کے کہتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں ندیم (ماموں) کی بہنا ہے (یعنی شہباز کی اماں)
شہباز آہستگی سے’ نہیں ‘ کہتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں عمران کی بہنا ہے (یعنی پھپھو)
شہباز صاف ‘کک’ کرکے نہیں کرتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں پیکر کی بہنا (بھیتر ترکش ایکٹرس ) ہے
ننھے شہباز کی آنکھیں چمک جاتی ہیں چہرہ کھل کے گلاب ہوجاتا ہے
“ہاں “
ذرا ٹین ایج میں آیا تو اپنا ارادہ ظاہر کردیا باپ کے لئے سجیسٹو دوسری بیوی پر آپ بدنیت ہوگیا
“میں بھیتر سے شادی کروں گا “
اچھا بابا ٹھیک ہے بچپن کا عشق ٹین ایج میں بھی قائم ہے پتہ چل گیا
” پہلے پڑھ تو لو”
“ہاں ” رٹے بازی شروع ہوگئی ہل ہل کے
پھر مریم نواز ٹی وی پر اپنی حشر سامانیوں سمیت نظر آنے لگی باپ کے ساتھ ‘مجھے کیوں نکالا ‘جلسے جلوس میں
حسرت آمیز آرزو اور تجسس سے پوچھا ٹین ایج شہباز نے
یہ کس سے شادی کرے گی ( اتنی خوبصورت)
ٹین ایج شہباز کی دلی آرزو اور اشتیاق نے مجھے مسکرانے پر مجبور کرگیا
“بیٹا ۔۔۔ یہ شادی شدہ ہے اس کی بیٹی بھی شادی شدہ ہے اور یہ نانی اماں ہے “
“نئیں جھوٹ بول رہی ہیں آپ”
(میرا ننھا سا دل دہلانے کو )
“کسی سے بھی پوچھ لو اپنے پاپا سے پوچھ لینا اماں سے پوچھ لو جس سے مرضی پوچھو یہی سچ ہے”
شہباز کی آنکھوں میں نم حیرانی اتر آئی
“کس سے کی ہے شادی ؟”
“ہے ایک کیپٹن صفدر ( بونگا سا)”
“اس سے کیوں کی ؟”
“اس وقت یہ خود بھی بونگی (مگر بہت دلکش حسینہ) تھی ۔۔۔”
میں نے ہنس کر اس کی معلومات میں اضافہ کیا
کل صاحبزادے ہمیں بینک لے کر گئے راستے صاف ستھرے بہتر دیکھ کر اور ذرا فروٹس وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھ کر بے ساختہ نواز فیملی اور وزیر اعلی پنجاب کی کارکردگی تعریف ہونے لگی کہ پنجاب کا تو پتہ نہیں لاہور انہی کے دور میں بہتر ہوتا ہے
شہباز بھی زور وشور سے ہاں میں ہاں ملانے لگا ہاں مریم نواز بہت اچھی وزیر اعلی ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔
مجھے کچھ شک گزرا
“مریم جیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو”
“دولت مند ؟ ۔۔۔ہاں” چونک کربرجستگی سے دولت مند کا معیار مقرر کیا
اب اس کا معیار خوبصورتی نہیں دولت ہے جان کر خوشی ہوئی کہ بڑا اور سمجھدار بھی ہوگیا ہے
“ہاں دولت مند بھی حسین بھی “
“ہاں ۔۔۔ تو اور کیا چاہئے”
“چل اللہ تیرا بیاہ شریف فیملی جیسی کسی امیر فیملی کی حسین ترین لڑکی سے کرائے ۔۔۔ آمین”
اپنے بچے کو دل سے دعا دی !!
خوش ہوگیا میرا من موہنا جان من ۔۔۔ بچے راضی تے میں راضی میرا رب راضی ۔۔۔اللہ اللہ ۔۔ اللہ خیر دے وقت لہیاوے میرے سارے بچیاں نکیاں وڈیاں دے لئی ہمیشہ تے خوش تے آباد رکھے جین جوگیاں نوں ، سلامت رہیں سب آمین ثم آمین


“نی میری بھولی پنچھنی!”
آ میرے سینے نال لگ جا
“آجا میری بھولی پنچھنی…. میری دھی! “
امی جی شروع ہی سے میرے بارے میں یہ رائے رکھتی ہیں
“میری بھولی دھی !”
میرا خیال ہے ہم سب ہی دل کے بھولے بھالے لوگ ہیں
“ساری رات بہہ رہئ ایں “
رات جب وہ سوگئیں تب اسلم بھائ ، ازکی اور عبدالرحمن وقفے وقفے سے انکے پاس آگئے تھے یہ دونوں بچے نیند کے بڑے پکے ہیں اور میں… میں تو بچپن سے آج تک نیندوں کی شہزادی ہوں دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے میں اپنی نیند کے وقت سے سمجھوتہ نہیں کرپاتی اور بہت گہری خوابوں باتوں خراٹوں سے پر نیند سوتی ہوں تو جیسے ہی امی جی کو نائیٹ اٹینڈنٹ کی ضرورت پڑی مجھے استثناء مل گیا گوکہ پہلے میں امی کے پاس ہی سوتی تھی مگر میری نیندکا جائزہ لے کر بغیر غور وخوض کے رات سب سے زیادہ دیر تک جاگے رہنے والے بھائی نے یہ ڈیوٹی سنبھال لی اس کے دونوں بچے اس سے بھی ماسٹر ان جاگرَاتا ہیں رات دس بجے میری نیند شروع صبح چار بجے فجر کی نماز کی وجہ سے جاگتی ہوں اور امی کے پاس آجاتی ہوں تسبیحات درود کلام پاک کا ورد کر کے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد پھر دوبارہ سوجاتی ہوں
اس پڑھائی کے دوران اگر وہ جاگ رہی ہوں تو مجھے دیکھتی رہتی ہیں اور میں بھولی پنچھی جیسی لگتی ہوں انہیں
“اج ساری رات جاگی ایں…. میری دھی، میرے کول ای بہہ رہئی ایں میری بھولی پنچھی…. سمجھ لا اج لیلت القدر سی، میں اپنی ماں لیئی جاگی آں… “
“اچھا…. “
انہیں مسلسل میرے بھولپن پہ پیار آرہا ہے اور میں ان کے بھولپن پہ مسکرا رہی ہوں
پھر انہیں یاد آگیا
لیلیاں نوں پایا کجھ”
“گھاہ.. “
“روٹی نہ پایو… پیٹ خراب کردی اے “
اک پرانی رضائی لے کے نا…. ادھی تھلے وشا کے ادھی اونہاں دے اتے دے دے…. نکے نکے کرونبل جئے نے ٹھنڈ نہ لگدی رہے”
” امی… تہانوں ٹھنڈ لگ رئی اے پیراں تے چادر پا دیواں “
انکے پیروں پہ چادر ڈال دی ہے…. آج ابر کی وجہ سے گرمی کا زور بھی کچھ ٹوٹا ہوا ہے
پھر انہوں نے کوئی بات کی…. میں آنکھوں پہ دوپٹہ رکھ چکی تھی سونے کے لئے
امی… نیند آرئی اے میں سون لگی آں “
“اچھا اچھا…. سوں جا میری بھولی پنچھنی”
بھولی پنچھنی…. بھولی پنچھنی… دوتین بار ہی سنا ہوگا کہ میں دوبارہ فجر کے بعد والی نیند میں ڈوب گئی ، خواب میں برگر کلاس کی ایک خاتون پینٹر کو پینٹنگز بناتے دیکھتی رہی جو کسی مردانہ سماجی رویئے کے خلاف تھیں اور ایک پینٹنگ میں تین چار مرد مونچھوں تک دریا یا پانی میں ڈبوئے ہوئے تھے اسکی نمائش بھی تھی اسی روز اور وہ بہت مصروفیت سے پینٹنگز پر فائنل اسٹروکس لگا رہی تھی ایک ہی دن میں اس نے کمال پھرتی اور مہارت سے تین چار پینٹنگز تیار کرلی تھیں، مجھے پہلے اس کے کام پر بھروسہ نہیں تھا مگر اب میں دلچسپی سے پینٹنگز دیکھ کر اچھا محسوس کر رہی تھی ایک دن میں خاصا اچھا کام کرلیا تھا اس نے…… جاگ گئی ہوں پونے سات بجے، فجر کی نماز کے بعد دوبارہ اگر نہ سوؤں تو میں سارا دن تھکی رہتی ہوں آندھی ہو طوفان ہو کالج ہو ویکیشن ہو فجر کی نماز کے بعد سونا میرے لئے ناگزیر ہے ورنہ گھر میں کون مجھے نیند کی شہزادی سمجھے گا….. صبح بخیر !

ہماری لائبہ تن دہی سے بلی اور اسکے تین بچوں کو پال پوس رہی ہے
اپنی پاکٹ منی بھی انکی ڈائیٹ چکن فوڈ اور دودھ وغیرہ پر لگا دیتی ہے
لائبہ کیا حال ہے بچوں کا؟ “
” کھیل رہے ہیں….انجوائے کر رہے ہیں”
” تجھے کیا سمجھتے ہیں…. آنٹی یا خالہ؟ “
” نوکر ” لائبہ سڑ کر بولی


ٹین ایج تھی سردی نہیں لگتی تھی
سب گھر والے کمروں میں گرم بستروں میں دبکے پڑے ہوتے
میں باہر صحن میں نکل آتی اور سردیوں کی چٹکی چاندنی میں دل کھول کر پوری آواز میں خوامخواہ ہی شوقیہ اقبال بانو کا گایا گیت گایا کرتی
ستارو تم تو سو جاؤ
پریشاں رات ساری ہے
کیونکہ یہ اسی وقت گانے والا گیت ہے رات کے سکوت میں آواز کے سر اور گونج کا سماں بن جاتا
دو ایک بول گاکر کپڑے لٹکانی والی تار پکڑ کر دو تین پوز مار کر لگتا تھا چاندنی رات منا کر آئی ہوں اسی وقت کوئی تیتری بھی چیختی ہوئی سنائی پڑتی دو تین بار چیختی ہوئی اسک آواز پاس آکر کہیں دور اڑتی چلی جاتی…. رات اور چاندنی کا سرور کچھ اور دوبالا ہوجاتا… اور پھر ہیروئین اندر جاکے سوجاتی


سرکاری ملازم جتنا بھی اتھرا ہو
اسے حکم زباں بندی اور تابعداری ہے
اپنے جائز حقوق کے لئے بھی اس بظاہر چنٹ مگر اندر سے ڈری سہمی مخلوق کو یونینز بنانی پڑتی ہیں وہ بھی سرکار کی اجازت سے
دوسری صورت میں جھونک دو جوانیاں فائلوں اور کمپیوٹروں میں نظریں گڑائے گڑائے
مدقوق بڑھاپا گنجاپن اور ذہنی پختگی لے کر لوٹ کے بابا / بےبے
اپنے گھر کو جاؤ
پنشن بیماریوں اور کھوں کھوں کے ساتھ جیسے اور جتنا بس میں ہو…
وقت ہنڈاؤ


اگرچہ ہم شروع ہی سے شہر میں پیدا ہویے شہر میں رہے
شہری بابو بچے تھے مگر بی بی (نانی) اللہ بخشے بنیادی طور پر گرداس پور کے گاؤں سے ہجرت کر کے آئیں تھیں اس لئے انہیں پنڈ کا ہوکا رہا ساری زندگی
کبھی وہ شوقیہ چرخا کاتتیں ویلنا چلاتیں دوپاٹ والی چکی پیستیں نالے پراندے بنتین مکھن بلوتیں تندور پہ روٹیاں لگاتیں ہم سارے ہی بچے جب وہ چرخہ ڈاہتیں ان کے آلے دوالے ہوکر تند وٹن دی کوشش کرتے… انہی کی وجہ سے ان سب چیزوں سے تعارف ہوا آج بھی دیکھ کر اپنائیت اور انسیت محسوس ہوتی ہے

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More