یخ بستہ سرد ہواوں میں اکثر
تیرے دھیان کی حرارت پاکر
اپنے وجود کے ایک اک ذرے کی
تپش آمیز سلگتی ریت پر
تیرے نقش پا کی تلاش کرتا ہوں
کہ ادھیڑ کر بدن تہہ در تہہ
درون عنصر تیری حمدو ثنا کے
حروف بھرتا ہوں
مگر جانے کس خمیر سے
کی ہے میری تعمیر پیکر
ہر اک خلیے سے بغاوت امڈ آتی ہے
کہ خیال اٹھتا ہے ذہن کے گوشوں سے
مالک خیرو شر
اس طرح کے تو ہوتے نہیں سچے راہبر
کہ ہم تو نفس و خواہش و تمنا کے سمندر
تیری ھی تخلیق کا معجزہ ہیں اے رب الکبیر
اسلم مراد
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی