ابھی کچھ رواداری کا بھرم رکھتے ہیں
کل اگر ملو گے ہم سے تو شکایت ہوگی
ہم نے معتوب کردیا وقت کا ہر لمحہ
جب سے یہ کور چشم ہم پہ برہم ہوا
وقت سے امیدیں تو کم ہی رکھی تھیں
یقیں مانو ایسا بھی نہیں چاہا تھا کبھی
جو آنکھیں خواب بہت بنتی ہیں
یقیں مانو اکثر وہی نم رہتی ہیں
شام سے باہر نکل کے پوچھوں تو
اب تو کس کی خاطر سجتی ہے
لمحوں کا گہن سوچ رہا ہے
کیسے وقت کو روشن کردے
ساری وجہ بس اتنی ہے
کہ حوصلہ ٹوٹا پھوٹا ہے
ورنہ جیون یہ ایسا کٹھن نہیں
جیسا اب مجھ کو لگتا ہے
دعا نہیں لگتی دوا نہیں لگتی
کہہ رہے ہیں بات یہ خدا لگتی
اب کیا علاج ہے میرا یارو
کل تک تو اک دوائی تھا
یہ شام خوبصورت تو ہے مگر
میرے دل پہ جب اس کا سحر طاری ہو
وجہیں بے شمار ہیں اداس رہنے کی
گرہیں بے حساب ہیں ابھی کھلنے کی
وہ وعدے کیا ہیں جو نبھائے نہیں جاتے
دل بھر جائے تو لوگ بہلائے نہیں جاتے
وعدہ ء شام سے مکر گئے وہ
دلبری کے اہتمام سے مکر گئے وہ
جیسے شام ہو اور پہاڑ کی چڑھائی ہو
تھکن ہو اور جان پہ بن آئی ہو
دیکھو ہے کوئی اس کے لئے ، راہ فرار ؟
جس پہ آنکھ دھر د ے ، ایک سلونی نار !
وہاں کسی محبت کے جن کا سایہ ہے درختوں پر
لارنس گارڈن جاو تو اے لڑکی ، جانا سوچ کر !
وہ جن پہ جادو چلنا تھا چل گیا اور خوب چلا
آنکھوں کی بات تھی تو یاد آئے خوبرو کیا کیا ؟
وه سجے سنورے اقتدار کے ایوانوں میں
مفلسی کوڑے میں رزق ڈھونڈتی رهی
ربا ! تیرا عشق مجھ کو بلا رہا ہے
میری روح کو پھر جھنجھنا رہا ہے
یہ کیا کہ بات کرتے ہیں وہ اپنے دل کی
اور داد ہم دل جلوں سے چاہتے ہیں
هم مقدر کو آزمائیں گے
تم اپنے داؤ آزما لینا
: کسی کو یقیں آئے نہ آئے مگر یہ سچ ہے
کہ ہم سے قلندر بھی خود ہی کو چاہتے ہیں
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی