اشعار

Abstract illustration of multi colored paint in water generated by AI

وہ جن پہ جادو چلنا تھا چل گیا اور خوب چلا
آنکھوں کی بات تھی تو یاد آئے خوبرو کیا کیا ؟


وه سجے سنورے اقتدار کے ایوانوں میں
مفلسی کوڑے میں رزق ڈھونڈتی رهی


ربا ! تیرا عشق مجھ کو بلا رہا ہے
میری روح کو پھر جھنجھنا رہا ہے

یہ کیا کہ بات کرتے ہیں وہ اپنے دل کی
اور داد ہم دل جلوں سے چاہتے ہیں

هم مقدر کو آزمائیں گے
تم اپنے داؤ آزما لینا

کسی کو یقیں آئے نہ آئے مگر یہ سچ ہے
کہ ہم سے قلندر بھی خود ہی کو چاہتے ہیں

عشق آگے کوئی دلیل نہیں حسن آگے کوئی سوال نہیں
آئیں بائیں شائیں چوں چراں کی کوئی مجال نہیں

شاداب رہیں وہ پھول جو تیرے آس پاس کھلیں
دشت جاں میں ناگ پھنی پہ کب گلاب کھلے

کتنی مشکل میں یار تم نے ڈال دیا ہے مجھ کو بھی
اور ایک محبت کی خاطر ڈال رکھا ہے خود کو بھی

محبت آرزووں کا سلسلہ سدا سرگرم رکھتی ہے
ایک پوری ہوجائے تو ہزاروں اور جاگ اٹھتی ہیں

اس دن سے اے دل ڈر لگتا ہے مجھے
کہ تیری آرزوئیں مار نہ ڈالیں تجھے

ہم نے کیسا دھوکہ کھایا تھا
یارم تم کو جب گنوایا تھا

سفر درپیش ہے پھر بےنشاں منزلوں کا
دل اکتاسا گیا ہےدشت میں رہتے رہتے

چل یہ سوچ کے خوش ہو لیں اے دل
شائید کہیں کوئی تیرا بھی تمنائی ہے

یہ مسلک ہے فقیری کا فنا فی اللہ
ہم فنا فی الذات ہوئے نہ فنا فی اللہ

روشنیکایہنکتہقوسقزحہوسکتاتھا
بسآنکھکازاویہذراسہسمتی

نفس بڑا ہی نفیس قاتل میرا
تزکیہء نفس کو قتل جانتا ہے

غباروں میں هوا بھر کے اڑا دی
پھر وهی غم کی هنسی اڑا دی

اتنا هنسے هم اسکی دلنواز گھاتوں په
که غم بھی حیرانی سے دیکھتا ره گیا

وه حیران هیں تو اب اس کا کیا کریں
که هم مرتے مرتے آخر کیسے جی اٹھے

جینے کا سودا هے کوئی کھیل نهیں
مار بھی دو گے تو مر یں گے نهیں

میری چشم تر کا خیال کیا هے
تجھے میرے دل کا ملال کیا هے

گو جواب هے تری بے رخی بھی
مگر میرا ایسا سوال کیا هے ؟

زمانه اپنی راه چلتا رها هم اپنی ڈگر په رهے
اس نے همارا ساتھ دیا نه هم اس کے ساتھ چلے

عزیز از جان تھے جو لوگ ہمیشہ سے
وہی مجھ سے بدگمانی کو روا رکھتے تھے

کلاسیکی لہجے کو جب سنوارا گیا
مجھے محبت سے ہی پکارا گیا

کچھ برا تو نهیں گر خود سے دوستی کرلی
خود سے دل لگایا خود سے دل لگی کر لی

خوابوں سے بندھی ہوں یوں کہ کھلتی ہی نہیں
کوئی دوسری کھڑکی کبھی کسی سمت کہیں

کس مشکل میں هیں کسی کو کیا بتائیں
هر کس و نا کس کو حال دل کیا سنائیں

ذرا سی بات هے چار و ناچار سه لیں گے
اب هر طوفان په ، نیا طوفان کیا اٹھائیں؟

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Read More

آبله پائ

بےکراں مسافتوں کیآبله پائمرهم گل سے کیامٹا چاهےانگ انگ میں پهیلی هےآرزو کی تھکنلهو نکال کے سارا بدل…
Read More
Glass pices
Read More

زوال

حسن اک زوال میں تھابکھرے ماہ و سال میں تھا وقت کی بےدرد چالوں پہآئینہ بھی سوال میں…
Read More