اشعار

A closeup shot showcasing a bunch of vibrant orange flowers Perfect for adding a pop of color to any project

کلاسیکی لہجے کو جب سنوارا گیا
مجھے محبت سے ہی پکارا گیا

اس نے مرے خوابوں کا یوں احترام کیا
جو کہا وہ دل سے مانتا ہی گیا

باتیں اتنی تھوڑی ہیں کرنے کے لئے
دن اتنا لمبا ہے گزر کر نہیں دیتا

کہاں گئی ہے میری قوت ارادی آخر
میری پرواز کے پر ٹوٹے ہیں کہاں پر

اندھیرا هوا تو جگنوؤں کے بھیس میں نکلیں گے
روشنی کا استعاره هیں روشنی سے نکلیں گے

اجالا هوا تو دلکشی سے نکلیں گے
اندھیرا هوا تو روشنی سے نکلیں گے

ٹوٹے هوئے بندھن بھی جڑ سکتے هیں
گر دونوں هاتھوں میں سرا باقی هو

هم جهاں بھی هوئے خودی کی قسم
خود میں پنهاں خود هی سے نکلیں گے

دیکھ کر تم کو یقیں نه آئے گا
ایسے قد سے زمیں سے نکلیں گے

دیکھ کر اور سنبھل کے چلنا پھر
کانٹے بھی یهیں قریں سے نکلیں گے

کھائی تھی جواں حوصلے کی قسم
پیری میں بھی اسی تمکیں سے نکلیں گے

هم نظر هوئے جو سجده ء اسرار سے
شوق کے سلسلے جبیں سے نکلیں گے

جس کو ڈھونڈتے هیں وهی ملتا نهیں
دوسرے لوگوں سے شهر بھرا هوا هے

درد کی رونمائی ہوا چاہتی ہے
وہی جگ ہنسائی ہوا چاہتی ہے

نظارہء شام ہے بڑا دلکش سا
اس پر یہ برستا ہوا موسم سا


لے جائے اڑا کر مجھے ٹھنڈی ہوا
دل پرندوں کے جیسا ہوا پاگل سا

فادرز ڈے منانے کو باپ کی اک سنت دہرائی ہے

دست شفقت کے ساتھ سب کو خرچی تھمائی ہے

نئی صبح کا آغاز ہے نئی ترنگ سے کرو
کھٹمٹھی زندگی بسر اپنے ڈھنگ سے کرو


وے بیبا گل سن لا میری کی لے جانا اگے
ایتھے وی رہ جانی ڈھیری

بات سے نئی بات نکال لیتے هیں
اس طرح مجھ کو ٹال دیتے هیں

فلسفے کو دہرا رہے ہیں
زندگی کو گنگنا رہے ہیں

جگنو نہ ستارہ چاند نہ کوئی مشعل
اندھیرا ہے اور اک طوفان کا ساتھ مسلسل

دنیا سے مایوس نہیں پر امید رہتی ہوں
اس نے توقع سے بڑھ کر مجھے اپنایا ہے

نہ دیا کر سوھنیا جھوٹے دلاسے
ایویں جگ تے بن جانے نے ہاسے

: واحد رحمن رحیم یا اللہ
اے کمال ذات لا منتہا
میری دستگیری میری پناہ

اتنے برے حالات نہیں ہیں میرے
کہ اے دل ناداں ترے ناز اٹھاوں

متاع جاں باندھ کر رکھی تو کھلا کہ
یہ مختصر سی گٹھڑی بہت ہی بھاری ہے

خود سے ملنا چاہتے تھے
دیر تلک مل نہ پائے

اتنا انتظار خود کو کرایا ہے
اتنی دیر خود سے ملنے میں

صبح کی مسکراہٹ روشن ہے
دن بھی ہے کچھ بدلا ہواسا

میں مسکرائی تو سبھی لوگ مسکرانے لگے
گماں نہ تھا اتنے لوگ مجھے چاہنے لگے

کوئی دوا کرے دعا کرے
جو چاہوں مجھ کو ملا کرے

بے فیض لوگوں کے درمیاں میں ہوں
فیض پروری کے امتحاں میں ہوں

کرم کی بارش میں بھیگتے ہوئے
ہم محبت کی راہ پر مستقل چلے

منت و التجا سے کام چلتا تو چلا لیتے
ترے مزاج کو نہ جانتے تو منا لیتے

ترا ساتھ بھی شائید ضروری نہیں تھا
یہ بات کھلی مگر بہت دیر کے بعد

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Read More

آبله پائ

بےکراں مسافتوں کیآبله پائمرهم گل سے کیامٹا چاهےانگ انگ میں پهیلی هےآرزو کی تھکنلهو نکال کے سارا بدل…
Read More
Glass pices
Read More

زوال

حسن اک زوال میں تھابکھرے ماہ و سال میں تھا وقت کی بےدرد چالوں پہآئینہ بھی سوال میں…
Read More