کلاسیکی لہجے کو جب سنوارا گیا
مجھے محبت سے ہی پکارا گیا
اس نے مرے خوابوں کا یوں احترام کیا
جو کہا وہ دل سے مانتا ہی گیا
باتیں اتنی تھوڑی ہیں کرنے کے لئے
دن اتنا لمبا ہے گزر کر نہیں دیتا
کہاں گئی ہے میری قوت ارادی آخر
میری پرواز کے پر ٹوٹے ہیں کہاں پر
اندھیرا هوا تو جگنوؤں کے بھیس میں نکلیں گے
روشنی کا استعاره هیں روشنی سے نکلیں گے
اجالا هوا تو دلکشی سے نکلیں گے
اندھیرا هوا تو روشنی سے نکلیں گے
ٹوٹے هوئے بندھن بھی جڑ سکتے هیں
گر دونوں هاتھوں میں سرا باقی هو
هم جهاں بھی هوئے خودی کی قسم
خود میں پنهاں خود هی سے نکلیں گے
دیکھ کر تم کو یقیں نه آئے گا
ایسے قد سے زمیں سے نکلیں گے
دیکھ کر اور سنبھل کے چلنا پھر
کانٹے بھی یهیں قریں سے نکلیں گے
کھائی تھی جواں حوصلے کی قسم
پیری میں بھی اسی تمکیں سے نکلیں گے
هم نظر هوئے جو سجده ء اسرار سے
شوق کے سلسلے جبیں سے نکلیں گے
جس کو ڈھونڈتے هیں وهی ملتا نهیں
دوسرے لوگوں سے شهر بھرا هوا هے
درد کی رونمائی ہوا چاہتی ہے
وہی جگ ہنسائی ہوا چاہتی ہے
نظارہء شام ہے بڑا دلکش سا
اس پر یہ برستا ہوا موسم سا
لے جائے اڑا کر مجھے ٹھنڈی ہوا
دل پرندوں کے جیسا ہوا پاگل سا
فادرز ڈے منانے کو باپ کی اک سنت دہرائی ہے
دست شفقت کے ساتھ سب کو خرچی تھمائی ہے
نئی صبح کا آغاز ہے نئی ترنگ سے کرو
کھٹمٹھی زندگی بسر اپنے ڈھنگ سے کرو
وے بیبا گل سن لا میری کی لے جانا اگے
ایتھے وی رہ جانی ڈھیری
بات سے نئی بات نکال لیتے هیں
اس طرح مجھ کو ٹال دیتے هیں
فلسفے کو دہرا رہے ہیں
زندگی کو گنگنا رہے ہیں
جگنو نہ ستارہ چاند نہ کوئی مشعل
اندھیرا ہے اور اک طوفان کا ساتھ مسلسل
دنیا سے مایوس نہیں پر امید رہتی ہوں
اس نے توقع سے بڑھ کر مجھے اپنایا ہے
نہ دیا کر سوھنیا جھوٹے دلاسے
ایویں جگ تے بن جانے نے ہاسے
: واحد رحمن رحیم یا اللہ
اے کمال ذات لا منتہا
میری دستگیری میری پناہ
اتنے برے حالات نہیں ہیں میرے
کہ اے دل ناداں ترے ناز اٹھاوں
متاع جاں باندھ کر رکھی تو کھلا کہ
یہ مختصر سی گٹھڑی بہت ہی بھاری ہے
خود سے ملنا چاہتے تھے
دیر تلک مل نہ پائے
اتنا انتظار خود کو کرایا ہے
اتنی دیر خود سے ملنے میں
صبح کی مسکراہٹ روشن ہے
دن بھی ہے کچھ بدلا ہواسا
میں مسکرائی تو سبھی لوگ مسکرانے لگے
گماں نہ تھا اتنے لوگ مجھے چاہنے لگے
کوئی دوا کرے دعا کرے
جو چاہوں مجھ کو ملا کرے
بے فیض لوگوں کے درمیاں میں ہوں
فیض پروری کے امتحاں میں ہوں
کرم کی بارش میں بھیگتے ہوئے
ہم محبت کی راہ پر مستقل چلے
منت و التجا سے کام چلتا تو چلا لیتے
ترے مزاج کو نہ جانتے تو منا لیتے
ترا ساتھ بھی شائید ضروری نہیں تھا
یہ بات کھلی مگر بہت دیر کے بعد
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی