کوئی دوا کرے دعا کرے
جو چاہوں مجھ کو ملا کرے
بے فیض لوگوں کے درمیاں میں ہوں
فیض پروری کے امتحاں میں ہوں
سب پھیکا نشہ ہے
محبت دولت یا شہرت
سرور کا لمحہ ہے اک
بندہ پروری اور عبادت
جنبش لب کی منتظر تھی دعا
دعا نہ دیتے آمین کہہ دیا ہوتا
مر گئے ہیں اب شوق سبھی
چہرہ یا آئینہ کچھ یاد نہی
آپ کیا چاہتے ہو مجھ سے آخر آج
صاف کہو ادھر ادھر کی تاویلیں کیا ؟
بات کرنی آئے تو کر لینا
آئیں بائیں شائیں نہ کرنا
دھوپ پردوں سے اب تو چھننے لگی
اے بے خبر ! اٹھ خواب سے جاگ بھی
ویکھیا انہاں صورتاں چ مت بھید نہ کائی
اک ما پے دوجا نکڑے بال دا مکھڑا
کاجل بکھرا ، ہاں مگر لگایا کب تھا
یہ بے وقتی نیند بھری ہے آنکھوں میں
کاجل پھیل رہا ہے ، بکھرنے دو
کون دیکھ رہا ہے ، دکھ چلنے دو
نیند یوں بھری ہے آنکھوں میں
جیسے کاجل کی پھیلتی سیاہی
سر شام ٹوٹ کے نیند جو آنے لگی ہے
دن بھر کی تھکن کی غماز ہے یہ بھی
شام بھی چپ ہے میں بھی کچھ خاموش سی
دوپہر کی گرمی بھگت کے بولیں بھی کیا ؟
علاج چارہ گرو کسی کے پاس نہیں ہے دل کا
تم مسیحائی کے اسٹیتھیسکوپ لگائے پھرتے ہو
زمانے بھر سے بات کر کے دیکھی ہے
بکواس کے سوا کچھ نہیں کرتا
مکمل جہاں کی آرزو پاگل ہی کرتے ہیں
اورکبھی ہم بھی ایسے ہی پاگل لگتے ہیں
دیکھنا خود کو کبھی زمانے کی آنکھ سے
خوش گمانیاں سبھی چکناچور ہو جائیں گی
میری آنکھ تھک گئی
مظاہر کا سلسلہ نہ رکا
شاخ جاں کی جان کو جیسے آیا ہوا
گل کا اک چاو تھا دل میں سمایا ہوا
بچہ ماں سے بچھڑ کے بہت بلکا ہے
باپ اسے عدالت سے لے آیا ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی