دیواروں کی بھول بھلیوں میں گم ہوں
ایک در سے نکل کر سامنا پھر دیوار کا ہے
ایک کام تھا وہ بھی ڈھنگ سے نہیں ہوا
ترک دنیا کا فیصلہ بھی اب تک نہیں ہوا
سردمہری سے ملتا ہے خود سے بھی
کہ اس ناداں دل کی اوقات یہی ہے
تکان ہونے لگی ہے مجھ کو معاف رکھنا
اب اگر شام کے ہمرکاب میری چال نہ ہو
: بے یقینی کی دلدل سے نکلوں اگر
تو یقیں کے دلائل مانوں بھی
سب بہت خوبصورت ہے اور بہت پر اسرار بھی
اور اس اسرار میں لپٹا کچھ بھیانک بھی ہوسکتا ہے
دل یونہی نہیں کچھ مانے گا
اپنا ذاتی تجربہ چاہتا ہے
میں نیویاں توں نیوی اوہدی سرکار وچ
اوہ جیدا دربار اچا ستے اسماناں توں
مرے قاتل اس قدر کم حوصلہ نہ ہو
جھک جائے اگر سر تو اڑا لین
آغاز محبت ہی ہجر کی تمہید لئے تھا
خوش رہنے کی کیسے تدبیر ہو کوئی
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی