یوں دیکھتے دیکھتے عمر گزرگئی
کل کو آج کی خبر نہیں آج کو کل کا پتہ نہیں
یکسانیت کا عفریت
یو ں روز و شب پہ طاری ہے
روز دن نیا نکلتا ہے وہی لے کے پرانا چہرہ
روز شب خوابی کا ہنگام وہی بجھا بجھاسا
اتنی یکسانیت میں دل کیسے بہلے
کہ ہر چہرے کی کہانی بھی پرانی
ہر رشتے کا تقاضہ بھی وہی الجھا سلجھا
خاموشی ہر چہرے کی
بولتی ہے سادہ سی ہربات
سنی سنائی اور وہی دہرائی ہوئی
جس کو دہرانا بھی وقت کا زیاں
یا ناکام سی وقت گزاری کی کوشش
یونہی پھیکی سی کمھلائی ہوئی۔۔۔۔
چلو دل کے بہلانے کو نئے سر سے تجدید وفا کرلیں
مگر۔۔۔۔۔
اس بے زاری میں اب
کیا دیکھیں ۔۔۔۔
کیا چاہیں ؟؟
اور سر میں وہ سودا کہاں سے لائیں !؟
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے