شام کی چاہ میں سورج کو بہلایا ہے بہت
شام کے حسین رنگ تجھ سے لپٹ کر
مقناطیسی شعاعوں میں ڈھل جاتے ہیں
اور ہر دل شکار ہوکر اپنا رستہ بھول کر
واپسی کے رستے پہ پڑ جاتا ہے
پرندے بھی پرواز کا رخ بدل کر گھر کی طرف مڑ جاتے ہیں
تو بھی جلد سے جلد گھر کو جا
دیکھنا وہاں مغربی کنارے پر پہاڑوں کے پیچھے نرم گھاس پر
ترا بستر بچھا ہوگا
آرام سے سوجانا
اپنی دن بھر کی آگ ٹھنڈی کر کے
سورج نے خشمناک نظروں سے
دوپہری عروج کے ساتھ
مشورے کو چٹپٹا کر دیکھا
کچھ اور نیچے آیا
پاگل۔۔۔۔
میں ہوں یا تم
میرے سر پہ دوتین گرم چپت لگائیں
مغربی کنارے پر میرا بستر نہیں لگتا۔۔۔۔
وہاں بھی جاگنے کی انگڑائی ہے
میں سدا سے جاگتا ہوں
اپنی ہی آگ میں جلتا ہوں
پاگل !۔۔۔۔ مجھے پاگل نہ بنا
میں پہلے ہی بہت سرپھرا ہوں
نہ تیرا ۔۔۔۔ نہ تیری شام کا عاشق
سورج ہوں
سورج مکھی سے پوچھ میرا
گل دوپہری سے پوچھ میرا
ہر گل کھلتا ہے میری کرنوں پر
دن کا دھندہ چلتا ہے میرے دم سے
تجھے صبح سے شام کی پڑی ہے
اے مرے تھکے ہارے ٹوٹے پھوٹے مسافر
شام کا جام مرغوب ہے تجھ کو
رات کی نیند سپنوں سے پیاری
اے زمیں کی ناخلف اولاد
میں تجھے اپنی وراثت سے عاق کرتا ہوں
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے