Kaam Chal Jai Ga
آخر ان پرندوں کے شب و روز بھی تو گزرتے ہیں
صبح چہچہاتے ہوئے
شام تھکے ہارے مسافتوں سے واپس ہوتے
اور رات کہیں بھی سوتے جاگتے
اور دن بھر دانہ دانہ چگتے
اور بے مقصد اڑانیں بھرتے ۔۔۔
سوائے بریڈنگ سیزن کے
جب تھوڑا بہت رومانس گھونسلے بنانا اور
انڈے سیتے بچوں کو دانا دنکا کھلانے کی مصروفیت ہوجاتی ہے
باقی تو بے مصرف
بے مقصد ہی اڑتے پھرتے ہیں
پھر تیرا دن کیوں اتنا لمبا ہوجاتا ہے
(وہ اڑتے ہیں
خوش رہتے ہیں ۔۔۔۔)
پاگل تیرے پاس خیال ہے
جتنا مرضی جتنا اونچا اڑالے
کام چل جائے گا
دن گزر جائے گا
سوچتے سوچتے بھی وقت کٹ جائے گا
“کام کام کام “مت کہنا بزرگو
ہم بابائے قائد کی اگلی نسلوں کو
ہم سے یہ نہیں ہوپائے گا
خیال کی پتنگ اڑانی ہے
اڑ جائے گی۔۔۔
‘بو کاٹا ‘ جتنی چاہیں
خیالوں میں پتنگیں کٹ جائیں گی
کام ہمارے دادا کرتے تھے
ابا کی مجبوری تھی
ہم بالکل نہیں کر پائیں گے
ہمیں معاف کرنا
شہزادے بنا کے پالا ہے
شہزادوں سے انصاف کرنا
جو کرناہے ۔۔۔ تم آپ کرنا !