Nostalgia – ناسٹیلجیا

Female statue holing red roses in hands

ہر ایک کی یہی آرزو ہوتی ہے
اور میری بھی شائید
زندگی کے کچھ پل
دل چاہتا ہے کہ دوبارہ گزاروں
کچھ دن پرائمری کے ہوں
کچھ ہائی اسکول کے
کچھ کالج اور یونیورسٹی کے بھی
اور گھر ۔۔۔
گھر پرانا تو جنت تھا
اس کا نقشہ تو ۔۔۔۔
ہر وقت دل میں کھنچا رہتا ہے
ہاں اس کے علاوہ
تین دن 17 پر کام کروں
دو دن ٹیسٹ بورڈ پر بھی
مگر ان موبائلز کا کیا کروں
جو کراچی تا لاہور
اور دنیا بھر میں
ہر وقت کنیکٹڈ رہتے ہیں
اور مجھے خاموش بٹھا دیا ہے
پھر دل چاہتا ہے
ماروی ہاسٹل کے روم نمبر 104 کی
کھڑکی سے باہر
پڑچھتی پہ بیٹھ کے
سردیوں کی دھوپ میں بال سکھاؤں
اور ہائی وے سے گزرتے
این ایل سی کے ٹرک دیکھوں اور گنوں
یا تیز دوڑتی ٹرین میں بیٹھی بجلی کے پول گنتی جاوں
خوامخواہ ہی
یا اونچی آواز سے پٹڑیوں کے ردھم سے ملا کر
گاتی رہوں کوئی بھی گیت
بے بی ساتھ ہو تو گانا دو گانا ہوجائے گا
یا پرانے سب اپنے ہوں ساتھ اگر تو ،
جینا واقعی جینا ہوجائے گا ۔۔۔
یا لاڑکانہ اینٹوں والی سڑک پر ترچھے پیر رکھ کر زگ زیگ چلوں
یا ٹرین کا انجن یا ڈبہ بن کر
جس کے پیچھے
بچوں کی اک لمبی قطار
ایک دوسرے کی قمیض کا کونہ پکڑے
چھک چھک کرتی چلی جارہی ہو
یا دھوئیں سے بھری آگ
پھونکیں مار مار کر جلانے سے ناکام ہوکے
کچی پکی ہنڈیا اتاروں
اور چمچہ بھر
کچے پکے دو کنی والے چاول
سب بچوں کی ہتھیلی پہ دھردوں
اور آخری آدھا چمچہ آپ چباوں
جوں دعوت شیراز ہے
کسی گڑیا کو سنہری تار کی نتھ پہنا کر دلہن بناوں
اور خود اس کا جہیز سیتی رہوں
سوئی دھاگے اور رنگ برنگ پٹولوں سے
یا سلائی مشین پہ اپنی فٹنگ والی قمیض سئیوں
کہ میری ٹین ایج کا وہی فیشن تھا
اور خوبصورتی کا راز بھی ۔۔۔
یا روٹیاں پکاوں لکڑی کی آگ پہ
کبھی کبھار
سفید یونیفارم میں ابو جی کے آگے ہتھیلی کردوں
وہ اٹھنی یا روپیہ خرچی دیں
اور پہلی تاریخ کو
امی جی کے ہاتھوں پر
میں اپنی معصوم مشقت کی ساری تنخواہ دھردوں
کالج سے بھاگ کر
اگلے روڈ پر ایکسچینج پہنچوں اور ڈانٹ کھائوں
“بے بی ۔۔۔ اتنی دیر ؟ “
ہاں پاری (مرحومہ) بھی تو میرے ساتھ ہو اکثر
ہم چپکے چپکے
فون پہ تنگ کرنے والوں کی باتیں کریں
اور خوب ہنسیں
اور ایک دوسرے کو خوامخواہ ہی چھیڑیں
نوعمری کے کچے خواب بھی شائید
اسی عمر کا خاصا ہیں
خوامخواہ ہی خود کو ہیروئیز جیسا سمجھیں
یا پھر ماروی ہاسٹل میں سکھیوں سنگ ہر وقت ہنسنا ہنسانا
پڑھائی سے زیادہ ہر وقت
ناچنا گانا ۔۔۔
جامشورو تا حیدرآباد
پوائنٹ میں سوار
روز ریشم گلی کے بہانے
جیسے سکھیوں کا پکنک منانا ۔۔۔
اکرم( پیارے )کے ساتھ آئینے میں ماڈلنگ کا پوز بناوں
وہ کہے میں سوہنا ہوں
میں کہوں میں سوہنی ہوں
تم ہی سوہنے من موہنے تھے
میرے پیارے بھائی
اسی لئے تو رب کو بھی
ہم سب سے پہلے تمہی پہ پیار آیا نا ۔۔۔۔
اور پھر
قائد اعظم یونیورسٹی
مارگلہ کے دامن میں سڑک پر چلتی جاوں
دادو تا لاڑکانہ پھر ایک بار سفر کروں کہ
کہ یہ رستہ
یہ ۔۔۔ میری روحانی افزودگی کا پہلا پڑاو ہے
اور فطرت کے ساتھ محبت کی پہلی سر شاری بھی
اب بھی گزروں تو میری روح کے تار بجنے لگتے ہیں
کچھ رستے خدا کو یاد کرا دیتے ہیں
یہ رستہ صوفی ہے
پھر دادو ہاسٹل میں کم از کم ایک مہینہ رہوں
اپنی عزیز ترین دوستوں کے ساتھ چائے ، گپ شپ ،
دنیا بھر کی فضول بے فضول باتیں کروں
اور عمر کےایک لمبے عرصے کا دریا ایک کوزے میں سمیٹ لوں
ہاں گلبرگ کالج کا مختصر پڑاو
کچھ طویل ہوتا تو
اور بھی اچھا رہتا
کام کام کام ۔۔۔ قائد اعظم کا فرمان
ان دنوں کا خاصہ تھا
ہاہاہا ۔۔۔۔
ایک پل ،
صرف ایک پل اس کے ساتھ بھی گزاروں
رائیگانی کا ملال جس سے وابستہ ہے
اور اسے ایک شکایت بھری نظر سے ضرور دیکھوں
جامشورو کے گھر کے اک کمرے میں
شام ڈھلے ۔۔۔۔
اگر وہ فارغ ہو تو !؟
اور پھر جیسی ہے ویسی ہی
اپنے آپ میں گم ،
خاموش اور مگن
تسبیح جیسی
عمر گزاروں
اپنے پیاروں کے بیچ
سکون قلب اور اطمینان کے ساتھ
بغیر کسی پریشانی اور فکر فاقے کے ۔۔۔۔
اللہ اللہ سبحان اللہ شکرالحمد للہ

عذرا مغل

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Read More

آبله پائ

بےکراں مسافتوں کیآبله پائمرهم گل سے کیامٹا چاهےانگ انگ میں پهیلی هےآرزو کی تھکنلهو نکال کے سارا بدل…
Read More