Sukhan
سخن آرائی کہ
وقت ہے یہ
کلام نہیں جس کی جادوگری پہ
ماضی مستقبل حال کی تکوین
سہہ رخی زاوئیے کی
ایک ہی دائرے پر تجسیم
میں کھڑی ہوں اپنے ماضی پر
کہ حال مسلسل دوڑ رہا ہے پیچھے کو
اور مستقبل آتے آتے
ماضی کے کنویں میں اچانک
گر جاتا ہے
اور میں دیکھتی رہ جاتی ہوں
خواب بنتے بنتے
کہ کہاں سے آیا کہاں گیا
وہ لمحہ جو تعبیر کی روشنی سجائے
میرے برابر سے ابھی تھا گزرا
اور اب
صدیوں کے اندھیرے میں کھو گیا ہے
سراب تھا روشنی یا اندھیرا
کہاں گیا وہ ۔۔۔۔ ؟
ماضی کی دہلیز پر مجھے بٹھا کر
حال سے نکل گیا وہ
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے