نکل جاوں کاش اس بے بسی کے منظر سے
کہیں اگلی منزلوں کی طرف ۔۔۔
جہاں شائید
تسکین دل کا کوئی ٹھکانا ہو
بے کلی بے دلی ، اور
یہ حیات دوراں کی خلش
درست کرنے کا کوئی بہانہ ہو
خود اختیاری
اور خود مختاری کے با وصف بھی
حیف اس دل پہ
جو کبھی ڈھنگ سے کچھ مانا ہو
مہرباں وقت سے بھی شاکی رہا
اور شکستگی کا تو جیسے
یہ ہمیشہ سے منتظر ہی تھا
کہ کب کرچیاں سمیٹے منظر سے
اور اپنی راہ لے چپکے سے ۔۔۔۔
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے