Yadish Bakhair – 18 یادش بخیر

Front view of a smiling woman

یادش بخیر

شاعری بغیر ودیعت کے نہیں ہو سکتی
اور بہترین شاعری یا تخلیق کا تصور آمد سے وابستہ ہے جو عموی طور پر جینئس لوگوں پر ہی اترتی یے وجدان کی صورت یا الہام کی صورت ۔۔۔ کوئی شاعر اس سے انکار نہیں کر سکتا ہاں متشاعر الگ درجہ ء مواصلات رکھتے ہیں ۔۔۔ہاہاہا
اور ہم واہ واہ کے ڈونگرے برساتے شخصیات پرستی میں بھی اکثر مبتلا ہو جاتے غالب میر وڈزورتھ کیٹس دنیا بھر کے تخلیقی ذہنوں کی مثال لے لیں عطا ہوئی تو کچھ ادا ہوا ۔۔۔ اور ہم دلی ادب اور شخصی احترام سے ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں ۔۔۔اور کمال یہ کہ اپنے کہیں کم تر پہ بھی اسی ادب احترام کے طلبگار ہوتے ہیں ۔۔بوجوہ نرگسیت جو عموما ہر صاحب فن کا خاصہ ہوتی ہے
پیغمبرانہ جینئس کا موازنہ بہرحال وجدان الہام کے علاؤہ کسی خاص کرم کی نشان دہی بھی کرتا ہے جس کو وحی کہا گیا ہے اور جس کا ادراک ہم اور آپ نہیں کر سکتے جس کا راز وہ جانیں یا رب جانے ۔۔۔
میں تووا تووا کردی ۔۔
ڈردی اڑیو
میں تووا تووا کردی
اچھی بری جو بھی تخلیقات مجھے میسر ہوئیں۔۔۔
عام طور پر آمد کا ہی کرشمہ تھیں
اب شائید کچھ پختہ ہوں تو سنبھال لیتی ہوں خود کو مگر جب تک کہیں وہ خیال اتار نہ لوں مجھ سے اگلا سانس لینا بھی اٹکا سا محسوس ہوتا ہے۔۔۔فیصل آباد گئی تو بھی وقت بے وقت سب سے الگ ہو کچھ لکھنے لگی ۔۔۔ شبانہ صفائی پیش کرتی ہنس کر
” آمد ہو گئی ہے”
تب تک دو چار لفظ لکھ کر میں بھی ہنسی کے موڈ میں آجاتی
دادو سے سلسلہ شروع ہوا تھا میں کالج جاتے جاتے رک جاتی جب تک خیال اتار نہ لیتی میرا ایک قدم اٹھانا مشکل ہوجاتا ۔۔۔اور اگر خود پہ ضبط کر کے چلی بھی جاتی تو ۔۔۔ وہ آمد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتی آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے فورا نہ لکھوں تو سب
غائب ۔۔۔ہمیشہ کے لئے
جیسے کسی نے لکھوایا لکھ دیا اس تخلیقی چوکی سے اتارا ۔۔۔ سب غائب
بہرحال شروع میں تو آمد کے ساتھ ہی باقاعدہ میرے دانت کچھ کچھ بھچنے لگتے تھے اگر اتارنے میں دیر ہوتی تو بے چینی بڑھ جاتی ۔۔۔اور جب لکھ لیتی تو ۔۔۔ایک دم ریلیکس آزاد اور خوش ۔۔۔ بہر حال اب کچھ بہتر صورتحال ہے آمد آورد دونوں سنبھل جاتی ہیں شکر الحمد للہ
ایک لحاظ سے تو اچھا ہی ہے ہم بہت آرام پرست اور مصنوعی زندگی کے عادی ہوتے جارہے تھے جو ہماری صحت کے لیے سراسر مضر تھا
اس انقلابی منہگائی کے بعد کم از کم ہم سادگی قناعت اور فطری زندگی کی طرف تو قدم بڑھا رہے ہیں
سادہ کھاؤ سادہ پہنو سادی سواری سادی بود و باش…..
پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو ‘سادگی انقلاب ‘مبارک ہو
پاکستان کی مجموعی آبادی کا تقریبا ساٹھ فیصد نوجوان ہیں اور پاکستان کے پاس ان کے حال اور مستقبل کا کوئی بہتر پلان نہیں ہے
خوب دلجمعی سے اے ون گریڈز اور پوزیشن کے ساتھ پڑھ لکھ کر چھوٹے موٹے کام اور پرائیویٹ جاب تک رسائی اگر حاصل کر بھی لیں تو دن رات خون نچوڑ کام کے بعد بمشکل اتنا کما پاتے ہیں کہ محض ذاتی خرچ اٹھا سکیں
اور اکثریت تو اس سے بھی محروم ہے اور یہ بچے بچیاں مایوسی اور فرسٹریشن کی وجہ سے بے چارگی کی تصویر بنتے جارہے ہیں کیونکہ جو خواب وہ تعلیمی مقابلے بازی کی فضا میں انتہائی محنت کرتے ہوئے دیکھتے آئے تھے ان کی تعبیر اکثریت کو دور دور تک نظر نہیں آتی
آنے والی جو بھی حکومت ہو اسے پاکستان کے نوجوان طبقے کے لئے کاروبار اور جابس کے خصوصی مواقع پیدا کرنے ہوں گے تاکہ معیشت میں بہتری کے ساتھ ساتھ ان کا معاشی مستقبل بھی محفوظ ہوسکے
افسوس ہوتا ہے جب اعلی تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان پرانے بوڑھوں اور پنشنرز کو بھی رشک سے دیکھتے ہیں کہ ان کی آمدن ان سےکہیں بہتر ہے اور ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں خالی جیبوں کا بوجھ لئے پھرتے ہیں اگرچہ ملک کے اعلی اداروں سے سرٹیفیکٹس اور ڈگریز کا پلندہ حاصل کیا ہوا ہے جاب اگر ملتی بھی ہے پرائیویٹ یا تیسرے درجے کی معمولی تنخواہ کے ساتھ
ان کو ایڈجسٹ کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے کہ یہ ساٹھ فیصد روشن اور جوان چہرے پاکستان کا روشن مستقبل ہیں
منہ اندھیرے علی الفجر یا کچھ پہلے جاگ جاتی ہوں کیونکہ رات جلدی سوتی ہوں دوپہر بارہ بجے ٹی وی دیکھتے ہوئے نیند کے جھونکے شروع ہوگئے ۔۔۔۔ ساڑھے بارہ ہوئے تو بے بی سے کہا ڈیڑھ دو بجے جگا دینا ظہر کے لئے ۔۔۔ٹی وی چلتا رہا برابر والوں کی گھریلو فیکٹری اور سامنے والوں کے گیٹ کی ویلڈنگ کی آواز دبانے کے لئے اسے آن رکھنا ہی مناسب تھا نیند کے ایک دو جھونکے آئے
“محبت زندگی ہے اور تم میری محبت ہو “
یہ گانا سنائی دے رہا تھا مگر بہت دیر میں یاد آیا کہ وحید مراد پہ پکچرائزڈ ہے اس وقت تو شائید مجھے اس کا نام بھی یاد نہ آتا جو میری خاطر یہ گانا گارہا ہوتا ۔۔۔ سوتے سوتے بے بی کی آواز سنی ساڑھے بارہ بجے سونے لگی ہو جواب دیئے بغیر سو گئی درمیان میں کچھ دیر بعد شبانہ بھی آئی
“ٹی وی بند کردوں”
اس نے بند کردیا ۔۔۔
“نہیں آن رہنے دو ساتھ والوں کے گھر سے بہت شور آرہا ہے”
نیند میں ہی جواب دیا
اس نے پھر آن کردیا کوئی اور گانا چل رہا تھا میں نے سوچا ریڈیو پہ گانا سننا زیادہ اچھا لگتا ہے بہ نسبت ٹی وی پر دیکھنے کے گائیکی کا صحیح لطف آتا ہے ۔۔سوگئی پھر ۔۔۔
ڈیڑھ گھنٹے کی نیند سو کر جاگی ہڑ بڑا کر ۔۔
وال کلاک پر بڑی سوئی نو پر نظر آئی پونے دو ہوگئے نماز پڑھ لوں وضو کیا اور وضو کرکے آتے ہوئے سونے کی کوشش کرتی
کزن بے بی کو بھی جگا دیا “اذان ہوگئی ہے ظہر کی نماز پڑھ لو”
نماز کی نیت کرنے ہی لگی تھی کہ بے بی نے اندر سے چٹخ کر کہا “مجھے جگا دیا آذان کہاں ہوئی ہے ابھی تو پونا ایک ہوا ہے۔۔۔”
ہاہاہا
وال کلاک پہ نظر ڈالی
پونا ایک ۔۔۔ گویا میں صرف پندرہ یا دس منٹ سوئی ہوں اور جیسے دو گھنٹے کی نیند پوری کرکے جاگی ہوں
وقت پھر میری نیند کے ساتھ ہی سوگیا تھا شائید۔۔۔ ہاہاہا
اب اذان کا انتظار کر رہی ہوں ۔۔ بلکہ اذان ہورہی ہے چلو نماز پڑھتے ہیں

پیاری بہنوں جیسی دوست حمیدہ پنھور کے لئے ۔۔۔۔۔ انجوائے
مونکی یاد پون تھا پنھوار عمر
مجھے یاد آتے ہیں پنھوار ، عمر
کیا حسن بھرے تھے سنگھار (چرواہے ) عمر
منھجو ملک مٹھو ملیر ، عمر
میرا وطن میٹھا ملیر ، عمر
کلاسیکی داستان عمر مارئی کے حوالے سے ہے یہ سانگ
جب سندھ کا بادشاہ عمر مارئی کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اسے سہیلیوں کے ساتھ کنویں سے پانی بھرتی کو اٹھا کے لے گیا اور اپنی رانی بنانا چاہا ۔۔۔
مارئی عورت کی عزت وقار جرات اور اپنوں سے محبت کے حوالےسے سندھ کی عورت کا سب سے بھر پور مزاحمتی اور پسندیدہ کردار ہے اسی حوالے سے شاہ لطیف سائیں کا شاہ جو رسالو میں ایک سر یا داستان ماروئی بھی ہے ہی ٹی وی ڈرامہ بھی موجود ہے( یہ کلام غالبا شاہ صاحب کا نہیں یے )
بہرحال اغوا شدہ غریب ماروئی ۔۔۔ حاکم عمر سومرو کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور اس قدر مزاحمت کرتی ہے اس کے محلات کھانے پوشاکوں زیورات اور ترغیبات سے کہ اس کے جواب میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے برے حال زمین پر ہی بیٹھ رہتی ہے ہر ترغیب کا مقابلہ وہ اپنے ماروئوں یعنی لوگوں کے اٹھنے بیٹھنے رہن سہن کھانے پینے اور دیگر حوالوں سے کرتی رہتی ہے ۔۔۔ہر وقت ملیراور مارو maroo and malir ( اپنے دیس اپنے لوگ) کو یاد کرتے رہنے سے انتہائی متاثر ہوکر بہت ہی بادشاہ عمر سومرو باعزت طریقے سے اجرک پہنا کر یعنی بہن بناکر اسے واپس ملیر چھوڑ جاتا ہے
ماروئی سندھ کی باکردار عورت کا اپنے دیس اور لوگوں سے محبت کا ایک مثالی اور مزاحمتی کردار یے جس کی ہر سندھی لڑکی / عورت سے توقع رکھی جاتی ہے اس لئے سندھ میں مارئی نام رکھنا بہت پسند بھی کیا جاتا ہے
سندھ یونیورسٹی میں ہمارے گرلز ہاسٹل کا نام بھی “ماروی ہاسٹل” تھا اور سب لڑکیوں کا خطاب احتراما ‘مارئی ‘بھی سمجھ لیں کہ یہاں سب ماروئیاں رہتی ہیں ۔۔ مطلب مرنے مارنے والیاں نہیں ۔۔۔
ہاں مگر ۔۔۔ مار بھی رکھتی تھیں !
سب بہت پیاریاں تھیں اتنا حسن اور سٹائل کی فراوانی وہیں دیکھی جب آٹھ بجے یونیورسٹی پوائنٹ کے لئے سب ہاسٹل کے گیٹ پر اکٹھی تیار ہوکے پہنچی بس کا انتظار کر رہی ہوتیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیروئن بنی ۔۔۔ واللہ
میں بھی انہی میں سے ایک تھی ۔۔۔ہاہاہا
یاد آیا خدا جانے کون کس کا کبھی کوئی کزن آیا ۔۔۔شومئی قسمت ( اس کی) ایک بار آدھ گھنٹہ مجھے بیٹھنا پڑ گیاگیسٹ روم میں دوست کے ساتھ ۔۔۔ آیا کم بخت کزن سے ملنے تھا دیکھنے کا ٹارگٹ مجھے بنائی رکھا ۔۔۔ہاہاہا
جوانی کی یادیں )
مجھ سے دوبارہ ملاقات کا شرف کبھی حاصل نہ ہوسکا (اگرچہ) پھیرے وہ خوب لگاتا کزن کی طرف ۔۔۔ لڑکیوں کا سارا شرارتی گروپ اس سے ملنے ملانے نوک جھونک اور شرارتیں کرنے لگا پتہ چلا وہ کزن سے کہہ رہا ہے اپنی کسی دوست سے میری شادی کرادو ۔۔ امیدوار بھی پیش ہوئیں
منہدی لگا کے اس کا نام بھی (جانے کیا تھا) لکھ لیا متوقع دلہن نے ۔۔۔ کوئی دو چار مہینے یہ سلسلہ چلا ہوگا میرےخیال سے (میری جانے بلا ۔۔۔)
لاڑکانہ سے واپس جامشورو گئی تو (متوقع ) دلہن اور تمام سہیلیاں میرے پیچھے پڑی ہوئی ہیں
عذرا دل چاہتا ہے تمہاری آنکھیں چوم لوں”
سہیلیوں میں جب سب طرف یہی جملہ بجتے سنا تو میں کچھ ہوشیار ہوئی آخر مسئلہ کیا ہوا ہے سب کے ساتھ
پہلی بار جو مسکراہٹ آئی تھی
غصہ میں تبدیل گئی سب سے سنجیدہ اور سلجھی ہوئی کو ایک طرف لے کر گئی
کیا مسئلہ ہے یہ ۔۔۔ جس طرف جاتی ہوں ہر کوئی یہی جملہ بول دیتی ہے کوئی نہ کوئی آٹھ دس سے سنا ہے میں نے ۔۔۔
یار مائنڈ مت کرنا ۔۔۔ وہ جو ہم فلاں کی فلاں سے منگنی کرا رہے تھے نہیں ہوئی ۔۔۔وہ بھاگ گیا ہے
کیوں ؟
تمہارا پوچھ رہا تھا کہ “عذرا کہاں ہے ؟
وہ نظر نہیں آتی ۔۔۔ نظر آئے تو میری طرف سے اس کی آنکھیں چوم لینا “
میرا نام لے کے جان چھڑا کے بھاگ گیا ۔۔۔ہاہاہا
لڑکیوں نے باری باری اپنا شرارتی فرض نبھایا
بلکہ متوقع منگیتر نے تو بغیر رقابت کا اظہار کئے خوش دلی سے باقاعدہ میری آنکھیں چوم کر یہ جملہ کہا ۔۔۔ہاہاہا
بھینگا پن لگتا ہے اب تو مجھے آدھے سر میں مسلسل نیورو لوجیکل دباؤ کے باعث سکڑی سمٹی پرانی آنکھوں میں کہ تجربہ کار ہو گئی ہیں شائید ۔۔۔۔ہاہاہا
آپا ثریا کے بابا ویسے آنکھوں کے ذرا سے ٹیڑھ پن کو صوفی پنے کا نشان قرار دیتے تھے ۔۔۔کہ نشانی ہے صوفیوں کی ذرا سی آنکھ کا پھیر (واللہ عالم ۔۔۔ )
کی جاناں میں کون بلھیا ؟
ارے لوگو تمہارا کیا ؟
میں جانوں میرا خدا جانے
ہاں اتنا ہے کہ جہاں بھی ہوں بڑی آسانی سے واپسی کی چھلانگ لگا لیتی ہوں
مطلب الٹی قلابازیاں ۔۔۔ میرے سارے بھتیجے بھتیجیوں نے بھی لگائی ہیں میری طرح بچپن میں۔۔۔
ہیریڈٹی پرابلم ہے یہ اگر صوفی ازم ہے تو ۔۔۔۔
اور ابوجی کی طرف سے ہے ماشا اللہ
ان کے آنکھیں ویسے سیدھی ہی تھیں ۔۔۔ ہاں خواتین کے معاملے میں مرد ہی تھے
کہ امی جی ہمیشہ کہتیں
” نیویں نیویں پاکے تکدا اے چالاکی نال ۔۔۔ “
وہ ہمیشہ آنکھیں نیچے کر لیتے تھے کسی بھی گھر آئی خاتون کو دیکھتے ہی۔۔۔ مگر امی کہتی ۔۔ نیویں پاکے تکدا اے ۔۔۔ ویکھو لیو بھانویں ۔۔۔ہاہاہا
پتہ نہیں کہاں سے وہ نیویں آنکھوں کے ترچھے کونے دیکھ لیتی تھیں ۔۔ہاہاہا
بھئی انتہائی ہینڈسم ہالی ووڈ ہیرو سٹائل کو لیا ملے گا دیکھ کر اس ٹوپی والے سفید خیمہ پوش وجود کی نظر آنے کے لئے بنائی گئی جالیوں میں اپنی نظر جھکا کر سائیڈ سے ترچھی نظر ڈال کر ۔۔۔ ہاں کبھی کبھار ان کی جھکی ترچھی نظر ہوتی ضرور تھی کہ خاتون کے راستے میں تو نہیں ہیں کہ پرے ہٹ جائیں ۔۔۔مگر اللہ بخشے دونوں کی نوک جھونک جنت میں بھی چل رہی ہے یا سکون سے رہ رہے ہیں اللہ ان کو ابدی سکون کی جنتوں میں رکھے ہمیشہ ان کے تمام پیارے اور عزیزوں ۔۔۔اور اکرم بھی ساتھ ہی ہو ان کے (آمین ثم آمین)
ہم بھی جا ملیں گے کبھی ۔۔۔
ہاں تو ماروی ہاسٹل اور یونیورسٹی کے دنوں میں ہی ایک بار لاڑکانہ گرلز کالج کی لڑکیاں ٹرپ پر جامشورو آئیں رات ان کا قیام ماروی ہاسٹل میں تھا ۔۔۔ میں گل کو لے کر ہال میں چلی گئی کہ چلو لاڑکانہ کی لڑکیوں سے گپ شپ کر کے آتے ہیں ۔۔۔
یار لاڑکانہ کی لڑکیاں تو بہت حسین ہیں
جی جی ۔۔۔۔ سندھ کا حسن اور سٹائل وہیں سے نکلتا ہے دوستو !
مجھے ہی دیکھ لو ۔۔۔ !!
پنجاب میں لہور ہے تو
سندھ میں لاڑکانہ ہے
اور میں تو پھر دونوں جگہوں کی ہوں
ملغوبہ اینڈ کھچڑی
دیسی گھی میں بنی دیسی سی۔۔۔ہاہاہا
عزیز و محترم ۔۔۔
عذرا مغل دام ظلہ ۔۔۔ہاہاہا
عرف نرگسی شخصیت ۔۔۔ہمارا جئے بھٹو نہیں تھا کیا ؟
تھا نا ۔۔۔
ہم سب جئے بھٹو ہیں
اور جب مزاح پہ آئیں تو ۔۔۔
بھاڑو چھٹو ہیں ۔۔۔ہاہاہا
مطلب ٹرین کا کرایہ نہیں دیتے چاہے ٹرین کا روٹ ہی ہمارے شہر سے کٹ جائے
شکر ہے بولان ایکسپریس بحال ہوگئی کوئٹہ ۔لاڑکانہ ۔دادو ۔جامشورو۔کراچی کے درمیان
بھئی میں نے ہمیشہ ٹکٹ پہ سفر کیا ہے کہ ۔۔۔ ایک ایماندار پاکستانی ہوں
ہاں مگر اب لاڑکانہ نہیں جانا چاہتی کہ بچپن کے سارے چہرے وہاں ہیں ہی نہیں نہ وہ گلیاں ویسی طلسمات بھری رہیں ۔۔۔ ہاں دادو جانا چاہتی ہوں کہ اللہ میری سب دوستوں کو سلامت رکھے آمین
گئی تو رضیہ سے بھی مل کر آوں گی ایام گزشتہ کو دہرالیں گے کچھ بچوں گی باتیں کریں گے کچھ طارق کی ہنس ہنسا کر ۔۔۔ مگر اداسی سے
وہ کہتی ہے طارق اس کے ساتھ ہی ہے اب تک ۔۔۔
I respect their love and she respects me too ….
کیا رقابت کیا پیچیدگیاں۔۔۔
شروع سے دوست ہیں اب بھی دوست ہیں اور سب سے اچھی دوست (غالبا)
میری ترکیب سے کھانا پکائیں بہت آسان اور مزیدار ۔۔۔
جو بھی پکانا ہے دھو کاٹ کر کوکنگ پاٹ میں ڈالیں پیاز لہسن ادرک نمک مرچ ہلدی دھنیا ٹماٹر گرم مصالحہ اٹرم پٹرم ۔۔۔ حسب ضرورت پانی سبزی ہے تو بہت کم چھٹا سا ، گوشت ہے تو مناسب ۔۔۔چولہے پر رکھ دیں ( آگ ضرور جلائیں ۔۔۔ میری مشکل یہی ہے کہ ماچس یا لائٹر بہت مشکل سے ملتے ہیں کسی نہ کسی کو ڈھونڈ کر مجھے پکڑانا پڑتے ہیں)
اپنا سارا کچا چٹھا چولہے پہ چڑھا دیں ۔۔۔ بے فکر ہوکر ٹی وی یا موبائل میں مصروف ہو جائیں
پندرہ منٹ بعد آٹھ کر ایک بار چمچ چلا آئیں پھر کچن چھوڑ کر جہاں مرضی بیٹھ کر جو مرضی کریں ۔۔ پندرہ منٹ بعد پھر جائیں چمچ چلا کر دیکھیں آپکا سالن میرے حساب سے تیار ہوچکا ہے کٹا دھنیا ایک دو ہری مرچ ڈالیں خوشبو ذائقے کے لئے ۔۔۔ چولہا بند ڈھکن بند پانچ منٹ بعد اتار لیں ۔۔۔ روٹی چاول آپ کا درد سر ہے خود پکائیں یا تندور سے منگوائیں ۔۔۔ کھانا تیار ہے
اور اگر آپ یہ کوکنگ مائیکرو ویو یا اوون میں کریں تو پندرہ منٹ کافی ہے اوون میں ایک بار رکھ دیں پندرہ منٹ بعد نکال لیں ۔۔۔ حسب ضرورت ٹائیم اور ریسیپی میں تھوڑا بہت تغیر و تبدل کرلیں حسب سمجھ اور ایکسپرٹیز ۔۔۔۔
اگر وقت کی کمی ہے تو چھٹی کا ایک دن لگائیں سبزیاں گوشت کاٹ صاف کرکے قربانی کے گوشت کی طرح الگ الگ پیکٹ بنائیں ٹماٹر ادرک لہسن پیاز سب ۔۔۔اب اسی پیکٹ میں حسب ضرورت سے (ذرا کم )نمک مرچ سارے مصالحے اور آئل ڈال کے فریز کر دیں ۔۔جو کھانے کا من ہو پیکٹ نکالیں تھوڑا سا پانی ڈال کے پکنے رکھ دیں آخر میں دھنیا ہری مرچ تازہ کاٹ کے ڈال دیں خصوصا جاب پہ جانے والی خواتین میری ریسیپیز سے استفادہ کر سکتی ہیں اور روز روز کی کھیچل سے بچ سکتی ہیں ۔۔۔
کوشش تو کریں کہ تازہ خریدیں تازہ پکائیں مگر مصروفیت اور مجبوری کا شکریہ ۔۔۔ہر آپشن کھلا رکھیں
بھئی میں اب جب بھی کچھ پکاوں ایسے ہی بناتی ہوں میری وجہ مصروفیت سے بڑھ کر پیروں اور کمر کی تکلیف ہے کہ کچن میں کھڑا رہنا مشکل ہے میرے لئے ۔۔۔ کبھی کوئی کوکنگ توجہ طلب ہو تو کرسی رکھ کے بیٹھ جاتی ہوں کوکنگ مجھے پسند ہے مگر اب بہت ہی کم کرتی ہوں چند ماہ بعد کبھی کبھار ۔۔۔۔ ذائقہ لاجواب ہوتا ہے میرے حساب سے
ایک بار جامشورو کے کچن میں کچھ پکا رہی تھی رضیہ کی مہمان آئی سگھڑ امی کا خیال تھا میں بھی اس کی پیاری بیٹی کی طرح پھوہڑ شیف یوں وہ جب بھی آتیں خود کھانا پکاتیں اور کھلاتیں ۔۔۔مجھے پکاتا دیکھ کر کچن میں چلی آئیں ۔۔۔
ہدایات دینے لگیں کہ اس کو بھی سکھا دوں بیٹی سمان ہی یے
نمک اتنا ڈالو مرچ اتنی ۔۔۔پیاز ایسے بھونو ۔۔۔ مجھے لگا میرا اندازہ ان سے بہتر ہے
رضیہ نے والدہ کو چٹک کر کہا
اماں ۔۔۔ آپ آجائیں کچن سے اس کا اندازہ بہت اچھا ہے ، اچھا بنائے گی “
ہماری شادی کی پہلی دعوت بھی رضیہ کے بھائی اور امی نے ہی کی تھی شادی کے تیسرے دن ۔۔۔ پہلے دن انہیں پتہ چلا دوسرے دن وہ ملنے آئے سب تیسرے دن ہم سب ان کے ہاں مدعو تھے پتہ نہیں کیسے کلاسک سے لوگ تھے حیران کرتے ہوئے )
طارق سے سب پیار بہت کرتے تھے یقینا اس لئے اس کی ہر بات کو سر تسلیم خم ۔۔۔ باقی سب معاملات کو سنبھالنے والی رضیہ کی سمجھداری ایک الگ ہی مقام پر تھی
تو گویا ہم دوست
دشمن بھی معترف تھے۔۔۔ یہی تو خوبی تھی کہ ہم ایک دوسری کی کسی بھی خوبی کو دل سے سراہتی تھیں ۔۔۔۔ جیسے بھئی اس کا سلیقہ مثالی تھا کپڑے دھوبی کو دھلنے جارہے ہیں اس طرح تہہ شدہ بندھے ہوئے کہ مجھے لگتا استری کرکے رکھے ہیں پتہ تب چلتا جب دھوبی کو دئے جاتے ۔۔۔ جو دراز کھول لو الماری کھول لو جب کھول لو سلیقے اور ترتیب سے سجا ہوا ۔۔۔ پورے گھر میں صرف ایک میری الماری تھی جو بے ہنگم ہونے کی گواہی دیتی ۔۔۔ کبھی کبھار میری غیر موجودگی میں وہ بھی سیٹ کر دیتی ۔۔۔ شروع میں سب کے کپڑے استری کرتی تو میرے بھی کر کے ٹانگ دیتی ۔۔۔ طارق کو یہ بات پسند نہ آئی اس کے کپڑے کیوں استری کرتی ہو یہ خود کرے گی ۔۔۔ چلو جی ٹھیک ہے ۔۔ میں اگر کھانا پکانا کر رہی ہوں (باورچی تھا ویسے گھر میں روزمرہ کوکنگ کے لئے کہ میں تو ویک اینڈ پر ہی ہوتی تھی اور رضیہ کو تو سبزی کاٹنا بھی نہیں آتی تھی کبھی کبھار طارق اپنے حساب سے موٹا جھوٹا کاٹ دیتا باورچی اگر گاؤں گیا ہوتا آلو یا سبزی کا کوئی ٹکڑا بڑا کوئی چھوٹا کوئی ٹرائینگل کوئی مربع کوئی مستطیل کوئی پچر سا کوئی فربہ ۔۔۔ رضیہ کو چھری پکڑنا نہیں آتی تھی مجھے تو دیکھ کر ہنسی آجاتی کہ یہ پکڑ کیسے رکھی ہے ۔۔۔ طارق بہت شوق اور ارمان سے میرے ہاتھوں پہ نظر گڑا دیتا جب میں فٹا فٹ سبزی کاٹ بنا رہی ہوتی ۔۔۔ میں اسے چھری دکھا کر قاتلانہ حملے کا اشارہ کرتی اس کی ہنسی چھوٹ جاتی ۔۔۔ایسے تو کبھی میری شکل پہ غور نہیں کرتا ہے )
رضیہ کپڑےاستری کرتی تو وہ ایک ساتھ سب کے استری کر دیتی ۔۔۔ مگر اسے میرا سوٹ ناگوار گزرا خدا گواہ ہے رضیہ کو نہیں طارق کو ۔۔۔ ہاہاہا
طارق کے کپڑے کتابوں کی الماری میرے کمرے میں تھی ۔۔۔استری کرکے سیٹ کرنا ، کپڑےہینگ کرنا ، رضیہ کا طارق سے مثالی پیار الماری کو بھی مثالی رنگ دئیے رکھتا ۔۔۔
مزے کی بات ہے یہ وسیع و عریض چالیس ام کے درختوں والا سرکاری بنگلہ رضیہ کی جاب اور ہاؤس رینٹ پہ تھا کہ اس کی جاب سندھالوجی سندھ یونیورسٹی میں تھی جس کے بڑے بڑے سرکاری بنگلوز تھے طارق کی سندھی ادبی بورڈ میں جن کی کوئی ہاؤسنگ فیسیلٹی نہ تھی
ان کا اپنا گھر سوسائیٹی میں کرائے پر دیا ہوا تھا ۔۔۔ جب اس گھر میں شفٹ ہوئے پرانے گھر سے تو کمال مہربانی سے دونوں نے پہلا حق مجھے دیا کہ کون سا کمرہ لوگی ۔۔۔ میں نے شروع والا باہر کی سمت جو صحن میں کھڑکیاں کھلتی تھیں گیٹ سے آتے ہی روشن اور ہوا دار سا وہ پسند کیا
طارق نے کہا “مجھے پتہ تھا یہی لے گی یہ “
شائید رضیہ کو بھی وہی کمرہ پسند تھا مگر اس نے فراخدلی سے کہا دوسرے کے بارے میں
میرے لئے وہی ٹھیک ہے بچوں ٹی وی لاونج کچن سے بھی قریب ہے مجھے گھر سنبھالنے دیکھنے میں بھی آسانی رہے گی “
وہ ہر چیز پہ بڑی فراخدلی سے سمجھوتہ کر لیتی تھی مگر طارق کی توجہ پہ نہیں ۔۔۔
اس نے طارق کو مجھ پہ توجہ دینے سے گریز پر ہی مائل و مجبور رکھا شائید / یقینا)
کہ میں توجہ دوں گی خیال رکھوں مگر تم مجھ سے نظر نہ ہٹانا
میں ناگن ناگن ۔۔ ۔۔ ہاہاہا
نگینہ کی سری دیوی لگتی کبھی کبھار مجھے ۔۔۔ ایک بار تنگ آکر میں نے طارق سے کہا
رضیہ کو ‘انکا ‘ کی طرح سر پہ سوار کر رکھا ہے
اس نے کہا
ہاں وہ میری انکا ہی ہے
میں نے کہا
مجھے پھر اقابلا سمجھ لو ۔۔۔
مگر انکا نے ہمیشہ اقابلا کو نو لفٹ کرائی رکھا جیسے اس نے اقابلا پڑھی ہی نہ ہو ۔۔۔ بس انکا ہی تھی سب رنگ ڈائجسٹ میں ۔۔۔ہاہاہا
ایک بار نور الہدی شاہ صاحبہ آئیں انہیں کوئی چیز طارق ڈھونڈ کے دکھا رہا تھا ۔۔۔الماری کھلی جیسے سیٹنگ کا فنی شہکار کھل گیا۔۔۔ ٹائیاں الگ پینٹس الگ شرٹس الگ انڈر وئیر بنیانوں کی الگ سیٹنگز ساکس الگ چھوٹے چھوٹے ہینگرز میں شلوار قمیض الگ اکڑے استری ،شدہ ٹوپی اجرک الگ، سب نگینے کی طرح اپنی اپنی جگہ فٹ اور سیٹ میں خود کبھی کبھار کھول کر حیران ہو جاتی کہ رکھتی کس طرح ہے۔۔۔ ایک بار صرف ایک بار مجھے ایک سوٹ پکڑایا کہ واپس رکھ دو الماری میں دوسرا پہنوں گا ۔۔۔ میں نے رکھ دیا بغیر سیٹنگ کے ایک ہی ہینگر پر دونوں چیزیں شکن دار الٹا سیدھا لٹکا کر ۔۔۔ وہ شائید میرے چیکنگ مشن پر تھا ۔۔۔ آفس سے واپس آتے ہی الماری کھولی وہی ہینگر نکالا پینٹ کا ایک پائنچہ شمال میں ایک مغربی شمال میں شرٹ کا بازو مغربی اور مشرقی دونوں سمتوں سے ترچھا اور اونچا نیچا ۔۔۔ اللہ جانتا ہے میں نے پوری توجہ اور کوشش سے ہینگ کئے تھے ۔۔۔ مگر میری مجبوری یہ تھی کہ کبھی مردانہ کپڑے سنبھالے نہ تھے ساری زندگی ہاسٹلوں میں گزری تھی باپ بھائیوں کے کپڑے کبھی رومال تک نہ دھویا نہ سنگوایا ۔۔۔
کیسی عورت ہو کپڑے تک ہینگر پہ نہیں لٹکا سکتیں ۔۔
یہ کیا ہے اس نے شرٹ اور پینٹ کو مزید ٹیڑھا کر کے مجھے گھور کے دکھایا ۔۔
تمہیں تو پھانسی پہ لٹکانا بھی آتا ہے “
میرا بھی برجستہ جواب نکل گیا
مجھے پتہ تھا اسے ہنسی آگئی ہے مگر اس نے چپ رہنے پہ اکتفا کیا ۔۔
اسے پتہ تھا اس نے پھانسی پہ لٹکا رکھا ہے سیدھا سیدھا
ایک بار پوچھا
محبت کے بارے میں اب کیا خیال ہے تمہارا ؟
میرے انداز میں زہر بھری تلخی گھل آئی
میرا بس چلے تو محبت کو سولی پہ لٹکا دوں “
میں نے بے ساختہ ریلنگ پہ لٹکے پردوں کی طرف سولی کا اشارہ کیا
اس کے خوبصورت اور جگ مشہور قہقہے چھوٹ گئے ۔۔۔
اس نے اسی خیال پر ایک شعر بھی لکھ دیا تھا بعد میں کہیں
کچھ اسی طرح( یاد نہیں پورا )
میرا بس چلے تو سولی پہ لٹکا دوں محبت کو

شائید میں نے بھی ایک نظم لکھی ہے کہیں

کیسی عورت ہو ؟
کپڑے ہینگر پہ لٹکانا نہیں آتے تمہیں
اس نے مجھے ڈپٹا
ہاں مگر ۔۔۔
تمہیں تو سولی پہ لٹکانا بھی آتا ہے
میں نے سوچا )
کچھ اسی طرح تھی شائید
میں نے اسے مسکرا کے دکھایا ۔۔۔ اچھا بیٹے تو کرلے مجھے ڈانٹنے کا ارمان پورا ۔۔۔ وہ غصے کی کامیاب ایکٹنگ کرتے ہوئے کپڑے سیٹ کرکے ہینگ کرکے جھنجھلا کر چلا گیا باہر۔۔۔ میرا کیا قصور بیٹھ رہی چپ چاپ (مزے سے)
بہرحال ایک بات انتہائی قابل تعریف ہے
بدزبانی ، بدتمیزی ، بدتہذیبی یا ہاتھ اٹھانا نفرت کی حدتک معیوب سمجھتا تھا وہ ۔۔۔ مگر نظر اندازی اس کا ایسا کند اور تیز ہتھیار تھا کہ نہ مرو نہ جیو ۔۔۔ بس پڑی سڑتی رہو اور ہتھیار کے سارے داؤ پیچ وہ مجھ پر ہی آزمائی رکھتا کہ اس میں اسکی شہزادی انکا راضی رہتی ۔۔۔ اور میں اس کے لئے قابل قبول بھی ہو جاتی کہ جب سارا دن میں نے ان کا بھرت ناٹیم سا رومانس دیکھنا ہے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے محبت کے نرت اور داؤ پیچ دکھاتے ۔۔۔ اور سب تو ان کے ناز و انداز کو انجوائے کرتے تھے مگر بہرحال میں اس سیٹ پر نہیں تھی کہ انجوائے کر سکوں ہاں گھونٹ گھونٹ زہر کی تلخی میرے اندر ضرور اترتی رہتی تھی ۔۔۔
شوہر قابو کرنا اسے آتا تھا پرانی کھلاڑی تھی اس کی انتہائی مزاج آشنا مجھے پھنسانے والے کوئی داؤ پیچ نہ آتے تھے اور میں سادگی اور معصومیت کی نمائندہ رہی ۔۔۔۔ رومانس کی جھجک تو آخر تک قائم رھی میں یہ شعبہ اسی کے ذمے رکھتی ہنسی مذاق فقرے بازی کر لیتی کبھی کبھار مگر نہ میں کھلتی تھی نہ وہ ہیں ڈھنگ سے کھلا مجھ پر ۔۔۔ شائید کھل جاتی مگر مسلسل نظر اندازی اور بے توجہی میں اس کا خود سے ہاتھ پکڑتے بھی جھجکتی تھی کہ رضیہ نہ دیکھ لے بچے نہ دیکھ لیں وہ چھڑالے گا۔۔۔ اور اسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ وہ بھی کرتا سارا دن ۔۔۔
حالانکہ وہ دونوں کھلی ڈھلی محبت انگلش سٹائل میں اٹھتے بیٹھتے گلے میں باہیں چھیڑ چھاڑ اور اسٹائل سے بچوں کے سامنے بھی نہ کتراتے ۔۔ کھی کھی کھی ۔۔۔۔ لاھوت بھی ہنستا مجھے دیکھتا میں بھی اس کی ہنسی کو انجوائے کر کے ہنس دیتی
میرے پاس کچھ نہ تھا سوائے چپ رہنے کے اور ان دونوں کے مطابق رہنے کے یہی میرا مدافعتی اور مزاحمتی ہتھیار تھا
اندر ہر وقت دل میں ٹوٹ پھوٹ جاری رہتی ۔۔۔ رونے کی عادت نہیں تھی ورنہ بندو بست ہر وقت رہتا ۔۔۔
بہرحال جب اس روز الماری کھلی
میرے سگھڑاپے اور سلیقے کی تحسین و داد آپا نور الہدی شاہ کی آنکھوں میں نظر آئی ۔۔۔
الماری تو بہت سیٹ ہے “
انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا
میں نے میسنی ایکٹنگ کرکے شکریہ بھری نظروں سے سرجھکالیا
دل میں ہنسی بھی آئی اور دل ہی دل میں رضیہ کو خراج تحسین بھی پیش کیا ۔۔۔ کہ بہن آج تو نے میری عزت رکھ لی اگر یہ الماری اور سیٹنگ میرے ہاتھ میں ہوتی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ ہوتی ۔۔۔ اور کیا سوچتیں آپا کہ آخر دیکھا کیا ہے اس پھوہڑ میں طارق نے ۔۔۔ہاہاہا
یہ طارق کا اور میرا معاملہ تھا میں جانوں وہ جانے کہ کس نے کس میں کیا دیکھا۔۔۔ہاہاہا

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپ رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More