Mutafriqat – متفرقات

Front view of a smiling woman

پاکستانی فیشن
میں زیادہ فیشن کرتی نہیں ہوں عموما کہ بحیثیت ایک رول ماڈل پروفیسری جاب کے اگرچہ پرانے وقت کی ساڑھی اور یونیفارمی گاؤن تو متروک ہوچکا تھا مگر لباس کی ڈیسنسی ضرور برقرار رکھی جاتی مشرقی شلوار قمیض اور خوبصورت دوپٹہ چاہے کوئی سر پہ لے یا گلے میں ڈال لے ۔۔عام طور پر یہی رائج تھا جینز پاجامے اور سکن ٹائیٹ پاجامے اور دیگر اسی طرح کے ملبوسات پرائیویٹ سکولز وغیرہ میں تو چل جاتے ہیں مگر سرکاری اداروں میں ڈریس ڈگنٹی اور ڈیسنسی کا عموما آج تک خیال رکھا جاتا ہے خاص طور پر سینیئرز کی طرف سے
برینڈڈ ایمبرائیڈڈ تھری پیس منفرد عموما کچھ حدتک منہگے بھی ڈریسز کو ترجیح دی جاتی ہے جو شخصیت کی انفرادیت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ خوبصورتی اور ڈیسنسی کا اظہار بھی کریں ۔۔گاون کبھی کبھار کوئی شوقیہ پہن بھی لے تو نہ منع ہے نہ پابندی ہے ایک بار گورنمنٹ نے کمپلسری کردیا تو سب نے خرید لئے یا سلوالئیے ۔۔۔مجھے آپا ثریا نے اپنا ایک دے دیا دوسرا خود استعمال کرنے لگیں ۔۔۔پھر جو نت نئے ڈریسز کا ہوکا اٹھا تو رفتہ رفتہ سب نے گاؤں سے جان چھڑالی میل کالجز میں عموما اب تک پروفیسرز گاؤن پہنتے ہیں ۔۔۔بہرحال ان ساری چیزوں کے باوجود خواتین مرد جاب پلیس پر سب ہی ممکن حد تک ماڈلنگ کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں ۔۔۔اور یہ انتہائی ضروری بھی ہے خاص طور پبلک ڈیلنگ سے متعلق جابز کے حوالے سے ۔۔۔
فیشن سینس ۔۔۔ کروں نہ کروں مگر مجھ میں اس قدر ضرور ڈیولپڈ ہے سن دا ٹین ایج فلمیں ڈرامے دیکھ دیکھ کرکہ فیشن کے عروج پر مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اگلا متوقع فیشن کیا ہوگا ۔۔۔
یہ میں فیشن انڈسٹری کے لوگوں کو جاب انٹرویو دے رہی ہوں کہ مجھ فارغ بیٹھی کو ہائیر کرلیں ۔۔۔ٹیکسٹائل انڈسٹری نے لمبے لمبے ڈھیلے ڈھیلے کپڑوں بڑے دوپٹوں کو اس لئے بھی فروغ دیا کہ اسلامی مشرقی ڈریسنگ کا تقاضہ تھا دوسرے کپڑا زیادہ لگنے کی وجہ سے آمدن میں اضافہ تھا ۔۔۔ خیر اب تو اچھے برینڈز میں ہر کوئی کھلا ڈلا کپڑا ہی دیتے ہیں لمبی اونچی نیچی ڈھیلی تنگ شرٹس اور ہر قسم کا پاجامہ فلیپر شلوار فیشن میں ان ہے ہر ایک اپنی مرضی کا فیشن کرنے کے لئے آزاد ہے ماڈلز بھی عریانی کا اتنا مظاہرہ کرنے سے اوائیڈ کرتی ہیں جو دیگر ممالک کی فیشن انڈسٹری اور پبلک میں رائج ہے ایک طرف افغانستان میں ٹوپی والا برقعہ پہنا جاتا ہے تو دوسری طرف انڈیا ذرا آزاد خیال واقع ہوا کھلے گلے آدھی ٹانگیں پیٹ وغیرہ دکھانے پر عام پبلک بھی تلی رہتی ہے ہمارے ہاں یہ رجحان نہ ہونے کے برابر ہے اسی لئے دونوں سے جنگیں کر رہے ہیں ۔۔۔کہ اعتدال میں رہو پڑوسیوں ۔۔۔ہاہاہا
بلکہ عام ہمارے ہاں یہ رجحان خواتین میں نہ ہونے کے برابر ہے ہاں نوجوان بچیاں کچھ کبھی آؤٹ پٹانگیاں کرلیتی ہیں۔۔۔
پنجاب کی وزیر اعلی عموما پاکستانی ڈریس کوڈ فالو کرتی نظر آتی ہیں پبلیکلی ۔۔۔
ساڑھی بھی اکا دکا زیب تن کرلیتی ہیں خواتین تقریبات میں ۔۔۔
مشرقی مغربی ڈریسز اونچی قمیضیں لمبی قمیض چھوٹے پائنچے جینز ٹروئزرز چھوٹ بڑے پائینچے فلیپر ہلکے گھیر کے غرارے پشواز میکسی فراک ۔۔۔
عبایا نقاب سب ان ہے کافی عرصے سے ۔۔۔
کوئی ایک فیشن نہیں بہت سے فیشن رل مل کے ایک ساتھ چل رہے ہیں ہیوی ایمبرائیڈری ابھی تک چھوٹے برینڈز میں خاصی ۔۔بڑوں میں ذرا کم اور سٹائلش یا اتنی ہیوی اور منفرد کہ چھوٹے برینڈز کے لئے افورڈ ایبل نہیں ۔۔
اسی طرح شادی بیاہ کے ڈریسز بھی اپنی مرضی اور بجٹ کے حساب سے ۔۔۔
جیولری جب سے سونا مہنگا ہوا ہے ادھیڑ عمر خواتین کے پاس تو ہے مگر شادیوں میں بھی ہلکے پھلکے سونے کے زیور کے ساتھ بھاری سیٹ عموما آرٹیفیشل ہی ہوتا ہے ۔۔۔
سونے کا رواج نئی جنریشن میں خاصا کم ہے آرٹیفیشل اور چاندی کو ترجیح دی جارہی ہے
اب مجھ فیشن انڈسٹری کی ماہرہ خان سے یہ سوال بنتا ہے کہ اگلا ٹرینڈ کیا ہوگا
پبلیکلی سال دو کم ازکم اسی ٹرینڈ پہ فیشن انڈسٹری چلتی رہے گی کہ سب کچھ چلتا ہے ۔۔۔
پھر اچانک کچھ منفرد خواتین کی بوریت شدید بوریت میں بدل جائے گی ۔۔۔
اور وہ ایک آدھ نیا ٹرینڈ دیں گی جو اب بھی ہے مگر کم ۔۔۔
یعنی ساڑھی اور سینٹرل ایشیا ازبک ترک ایران اور عرب ممالک کے کاپیڈ ڈریسز ۔۔۔
اور عبایا نقاب گلوز تو پاکستان کا مین سٹریم فیشن بنا رہے گا جب تک اسلامی لمبی چادر کی بجائے عبایہ سے اسلام ڈیفائن کیا جائے گا ۔۔۔مردوں کی فیشن انڈسٹری وہی سالوں سے ان فیشن ٹرینڈز فالو کرتی رہے گی کہ کمبختوں میں فیشن سینس ہی نہیں ۔۔۔داڑھی اور عمامہ کے علاؤہ کلین شیو کبھی مونچھیں رکھیں گے کبھی مونچھیں صاف کر کے شکل بدلنےکی کوشش کریں گے یا داڑھی کے ڈیزائن ادل بدل لیں گے ۔۔گنجے اسی فیصد ہوں گے بیشتر خضابی اور شوقین مختلف برینڈز اور کلرز سر اور داڑھی پر بھی لگائے ہوئے۔۔
بوڑھے منہدی رنگی داڑھی میں بھی مل سکتے ہیں مگر خال خال۔۔۔
خواتین کے بال بھی بڑھتی عمر کے ساتھ خاصے چھدرے اور مختلف برینڈز کے رنگوں سے رنگے ہوئے ۔۔۔
کچھ خواتین انٹلیکچوئلزم کا شدید مظاہرہ کرتے ساری چٹی سفید زلفیں تراشیدہ یا لمبی ۔۔۔
مگر بات کرنے پر پتہ چل جائے گا وہی پاکستانی پروڈکٹ ہے جو سب ہیں یعنی سب رلا ملا اور ہر ایک کی اپنی مرضی کا رہے گا
اور میں سلیمانی ٹوپی اور اونی سکارف کا کاروبار کروں گی ۔۔۔ہاتھ کے بنے سوئیٹر سکارف شالیں بھی فروغ پارہے ہیں مگر ماہرین فن کم ہیں تو نئی نسل ترلے کرتی پائے جائے گی۔۔۔ہاہاہا
میں نے پچھلے چھ سات سال میں اسی پیش آمدہ فیشن کے زیر نظر ۔۔۔بھابی سے تین چار ہنیڈ میڈ سوئیٹر بنوالئے تھے ۔۔ایک پچھلے سال خود بنالیا تھا شالیں بے شمار ہیں اس سال ہمیشہ کی طرح سردیوں میں گھر بیٹھی خوب سرد فیشن کروں گی ۔۔۔ مجھے بس وہی مات دے سکتا/ سکتی ہے جو لنڈے کے امپورٹڈ برینڈز پہنیں گے سو پیپلز رش ٹو لنڈا ناؤ آگئے ہیں ۔۔۔اب تو آن لائن بھی اشتہار چل رہے ہیں میں کبھی پہن کر نہیں کہوں گی کہ امریکہ سے انکل سام ٹام نے بھیجا ہے مجھے ہمک سے متلی ہوتی ہے جو جتنا مرضی دھو کوٹ لو نہ رنگ بگڑتا ہے نہ میٹیریل خراب ہوتا ہے مگر انگریزوں کی خوشبو بھی ۔۔۔ کبھی بھی دور نہیں ہوتی۔۔۔
یہ میرے بچپن کا تجربہ ہے
اچھا بھئی فیشن انڈسٹری بتا دینا کب میری خدمات چاہئیں سکارف بننے کے لئے ۔۔۔ہاہاہا

عذرا مغل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More