میٹھے پانی کی شربتی لذتوں کی قسم
کھارے پانی کا ذائقہ
آنسوؤں کے نمک سے میٹھا سا ہے
یوں تو چکھے ہیں سارے ہی ذائقے
مگر زہر خند جو دنیا کے لہجے کا ہے
افسوس بہت ساری باتوں کا ہے
اس سرد پیشانی کی بے جان کلفتوں کا بھی ہے
شہر آزار میں کہاں تلک وہ جیتا مگر
کہ ہر دن چڑھا نت نئی ذلتوں کا سفیر
جا گزیں رہ جاتی ہے کمی کوئی نہ کوئی
دل پہ جانے والوں کا حساب رہتا سا ہے
ذلتوں کے مارے لوگ ہیں یہ
کس آسانی سے بے موت مرتے ہوئے
ہاہ ! دیکھ لے اے دنیا مگر
تجھ سے بھی اور خود سے بھی
یہ پشیماں نفس ، کوتاہ جبیں، ہر طرف سے جیسے ہارے ہوئے
کوئی بازی نہ ان کی ترکیب لڑی
کوئی پانسہ نہ انکا پلٹا گیا
ایک دل تھا ۔۔۔ سہولت سے کام آگیا
!!جیسے سارا حساب اس نے چکتا کیا
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے