Ashaar
وقت ہے جیسا تیسا گزر ہی جائے گا
نشتر پہ مرہم بھی یہ ہی لگائے گا
بحث بہت کرنے لگا ہےدل ترک وفا کے سوال پر
چاہتا ہے مجھے زچ کر نا اور نڈھال سے نڈھال تر
رہے ہمیشہ نام خدا ہمارا تمہارا رہے نہ رہے
دنیا کو کیا ، کوئی کل مرتا ہے کہ آج مرے
خفگی سے مراد ترک گفتگو نہی ہے
دل کی بات نہ سہی، موسم سرد ہے
تھکن سے کہہ دو کچھ دیر اب آرام کرے
جسکے لئےنڈھال ہےوہ اپنےمصروف حال ہے
گفتگو کہاں یہ، معاف کرنا خود کلامی ہے
خود سے بات کرتے ہیں جواب سے قطع نظر
یہ دل کے منوانے میں چالاک بہت ہے
د رد بھی ہے اور چارہ گر تاپ بہت ہے
بہت ہوگئی دل نہ کرنا چون وچرا
تیری مرضی پہ چل کے ، دیکھ لیا
کسی اور سے نہیں اس سے کلام ہے
کہ درد اور دل کا رشتہ دوام ہے
ہاتھ رکھ کے دل پہ شب دل فگار
لے گئی شبستاں سے ماہتاب نکال
کیفیت میں ہی آج کل بے وزنی ہے
بات بھی بے ربط اور اٹکی اٹکی ہے
بہت ہوگئی دل نہ کرنا چون وچرا
تیری مرضی پہ چل کے ، دیکھ لیا
قبل اس کے کہ نظر نا منظور کرے
سر جھکائے محفل سے نکل آئے ہیں
پریشاں ہے منظر اپنی بے ترتیبی سے
کیسے سلجھے یہ خوش اسلوبی سے
سر میں ساز میں تال میں جھنکار میں
آواز گونج رہی ہے بازگشت کے راز میں
بوجھ سمجھ کے تعلق کو نبھایا نہیں جاتا
اپنا جنہیں سمجھیں ان کو رلایا نہیں جاتا
دیا ! من ریجھانے میں کیا مسکل ہے
او طرف آنکھ گھمانے میں کیا مسکل ہے
آج یاد کا دلاسہ ہے ۔۔۔
کل یار کی رفاقت تھی
زلفیں بھی الجھی هیں ، مسائل بھی
کچھ بھی سلجھانے کا اب شوق نهیں
جو بات ہوگی اب خود سے ہوگی
اچھا ہے تم بھی ہم کو بھول جاؤ
وقت یہ کہاں سے کہاں آگیا
ابھی تک تیرا پاگل پن نہ گیا
زخم تو بھرجائے گا نشان ہی رہ جائے گا
مرہم اور مسیحا بھی چھوڑ کے گھر جائے گا
وہ چال چلتا رہا محبت کی
ہر جگہ بہت دلجمعی کے ساتھ
کہاں چلتا ہے معاملہ محبت کا
اگر چلائے کوئی دل لگی کے ساتھ
وقت یہ کہاں سے کہاں آگیا
ابھی تک تیرا پاگل پن نہ گیا
وہ بھی اپنی ضد پہ قائم ہے
ہم بھی انا سنبھالے بیٹھے ہیں
زخم تو بھرجائے گا نشان ہی رہ جائے گا
مرہم اور مسیحا بھی چھوڑ کے گھر جائے گا
زلفیں بھی الجھی هیں ، مسائل بھی
کچھ بھی سلجھانے کا اب شوق نهیں
زہر مسیحائی شائید کہ اثر کرنے لگا ہے
زخم جگر اب تلخی سے بھرنے لگا ہے
ابھی تو زخم کا سہارا ہے رونے کو اور تلخ ہونے کو
بھرگیا تو کیا ہو گا اور زہر مسیحائی کیا کرے گا
کیا کریں گے جب چارہ گری اٹھ جائے گی
اور جس زخم کو روتے ہیں وہی بھر جائےگا
جو بات ہوگی اب خود سے ہوگی
اچھا ہے تم بھی ہم کو بھول جاؤ
زخم تو بھرجائے گا نشان ہی رہ جائے گا
مرہم اور مسیحا بھی چھوڑ کے گھر جائے گا
ترک تمنا کا اراده تو کر لیا تم نے
جینے کا کوئی اور سامان بھی کیا
تاب اچھی نہیں لگتی بات اچھی نہیں لگتی
کوئی بھی ہو اب ملاقات اچھی نہیں لگتی
محفل کو چھوڑکے اس کے حال پر
گھر چلو ، رات گہری ہو گئی ہے
تازه پھول چنتے هیں کارنس په دھر دیتے هیں
قریب هی گل دان باسی پھولوں سے بھرا هے
بلا سبب هی روز پھول چنتے هیں
نه اپنا شوق هے نه کسی کو دینے کا
بلا سبب هی روز پھول چنتے هیں
نه اپنا شوق هے نه کسی کو دینے کا
سب سوالوں کے جواب میں اک خاموشی
اس کے سوا کیا اور تھا پلے میرے
سیکھا نہیں ابھی تک کوئی سبق
کہنے کو خیر سے استاد ہوگئے
یہ بزم رنگ بھری ہے ، اس کے چمتکار بڑے
اسے ہماری قسم ہو ، جو سب سے پہلے اٹھے
تم کو میرا خیال کرنا هی پڑے گا
شهر سے گزرو تو ملنا هی پڑے گا
کس کو ڈھونڈتا هے دل سر شام
اب تو کوئی ایک نهیں ایسا نام
اب اداسی کو گلے لگا کے سوجائیں
یه تھپک تھپک کے لوری سنا دے گی
: جس کا وقت آئے گا چل دے گا
جس کا وقت ہے ابھی چل رہا ہے
دل هراس زده هے اس شهر میں ایسے
جیسے جنگل میں ایک اکیلی هرنی هو
خوف دل کے اندر سرایت کرتا هے
جوں هی یه دن رات میں بدلتا هے
وقت بھی کس مخمصے میں ہے
تیری تمنا کے ، جھٹپٹے میں ہے
میرا نقص ہی میرا ہنر ہے
مری سادگی ہی مرا فن ہے
معاف کر نا یہ مکالمہ ہے نہ کلام
خود کو سنا رہے ہیں خود اپنا حال
غم ٹھکانے لگے تو کسی اور بات کا سوچیں
ابھی تو پال کر اس کو هی جواں کر رهے هیں
خوف اتر آتا هے مری آنکھوں میں
اس شهر کی اجنبیت کے خیال سے
ہائے ہائے کر رہے ہیں یہ دل والے
اچھا ہے کان پہ مفلر ہم چڑھا لیں
معاف کر نا یہ مکالمہ ہے نہ کلام
خود کو سنا رہے ہیں خود اپنا حال
پریشاں ہے منظر اپنی بے ترتیبی سے
کیسے سلجھے یہ خوش اسلوبی سے
ساتھ چلے دوستوں کے اثاثه ء جاں لے کے
کیوں نه گئے هم تعویز حفظ و اماں لے کے
یہ بزم رنگ بھری ہے ، اس کے چمتکار بڑے
اسے ہماری قسم ہو ، جو سب سے پہلے اٹھے
انسانوں کے ہجوم میں آوازوں کے شور میں
ترا چہرہ منفرد ہے اور آواز بھی خوش آہنگ
سر میں ساز میں تال میں جھنکار میں
آواز گونج رہی ہے بازگشت کے راز میں
بوجھ سمجھ کے تعلق کو نبھایا نہیں جاتا
اپنا جنہیں سمجھیں ان کو رلایا نہیں جاتا
تھوڑے کہے کو زیادہ جانیو
دنیا جو کہے مجھ کو اپنا جانیو
ہاتھ رکھ کے دل پہ شب دل فگار
لے گئی شبستاں سے ماہتاب نکال
کون سنے گا ہم سے ہماری راگنی
وہ بھی بے سری اور بے مطلب سی
گر پاگلوں کے سروں پر سینگ اگتے
تو ہم سے بھی تاج سجائے پھرتے
چاندنی کا کیا جو چٹکی ہوئی ہے
سرد راتوں کا کیا جو اندھی ہیں
سانس چل رہی ہے غنیمت ہے
لہو کی آگ بھی سلامت ہے
ہم نہیں آنے کے تیری چالوں میں
زندگی ہر حربہ آزما کے دیکھ لے
کچھ قول پرانے یاد آئے کچھ گزرے زمانے یاد آئے
ہم اپنے حال میں اک پل بھی چین سے رہ نہ پائے
کوئی نہیں ہے مخاطب مرا
آئینے سے ہم کلام ہوں میں
اتنی دور نہ جاؤ دل سے
کہ دنیا میں الجھ کے رہ جاؤں
ذرا معاملات کو سیدھا کرلیں
پھر فضولیات سے نپٹیں گے
جهاں بیٹھتے هیں بس بیٹھ هی جاتے هیں
خود کو اٹھانے میں زمانے سے لگ جاتے هیں
اس کو خدا کسی اور رنگ میں خوش رکھتا ہے
جو متاع دنیا سے کچھ محروم ہوا کرتا ہے
خدا نے کسی کے لئے مکمل جہاں نہیں بنایا
اور اتنا نامکمل بھی نہیں کہ اسکا شکر ادا نہ ہو
سب کی اپنی اپنی خوشیاں
سب کے اپنے اپنے روگ
راسته سامنے هے بیچ میں کچھ سراب سا هے
سراب سے آگے پھر سراب ، کیا عذاب سا هے
رس گھل رها تھا که اس آواز کی لهر تھی
گیت اس کا کسی اور هی زباں میں تھا
کچھ خوابوں سے بهلا تھا دل
کچھ تعبیروں سے ڈر سا گیا هے
تھک چکے هیں تھک چکے هیں
مگر مان کےنهیں دے رهے هیں
کیا بهلا سکتا هے دل کو
کچھ تو رهنمائی کر دو
تھکان ایسی فراواں هے جسم و جاں میں
دھوپ کتنے بھی رنگ لائے آنکھ بند هے
بچے بهلا سکتے هیں یا کچھ پیارے سے پالتو جانور
دل کو بهلانا اب تیرے بس کا بھی روگ نهیں
ملبه دل کا هے که گھر کا هے
ے هو جائے تو کچھ سمیٹں بھی
زخم تو بھرجائے گا نشان ہی رہ جائے گا
مرہم اور مسیحا بھی چھوڑ کے گھر جائے گا
وہ چال چلتا رہا محبت کی
ہر جگہ بہت دلجمعی کے ساتھ
کہاں چلتا ہے معاملہ محبت کا
اگر چلائے کوئی دل لگی کے ساتھ
وقت یہ کہاں سے کہاں آگیا
ابھی تک تیرا پاگل پن نہ گیا
زہر مسیحائی شائید کہ اثر کرنے لگا ہے
زخم جگر اب تلخی سے بھرنے لگا ہے
ابھی تو زخم کا سہارا ہے رونے کو اور تلخ ہونے کو
بھرگیا تو کیا ہو گا اور زہر مسیحائی کیا کرے گا
کیا کریں گے جب چارہ گری اٹھ جائے گی
اور جس زخم کو روتے ہیں وہی بھر جائےگا
ترک تمنا کا اراده تو کر لیا تم نے
جینے کا کوئی اور سامان بھی کیا
کوئی تو انتظام ہو جائے
کہ شام کا اہتمام ہو جائے
بزم کی تیری خیر ر ہے
خستگی، خوش کام ہوجائے
خواب اب اٹھا رکھیں
کام ہی نہ تمام ہو جائے
کس پہ رکھیں کیا مدار
اپنے ہاتھ سے کام ہوجائے
دھوپ ہے سخت آتشیں
چھاپر ے کا انتظام ہوجائے
برہم نہ ہو یہ چاند کہیں
چاندنی کو بھی پیام ہو جائے
ایسی ہے اسکی آنکھ سنو
جس کو دیکھے غلام ہوجائے
ہماری ہے کیا بساط ابھی
اس پہ دنیا بھی رام ہوجائے
ایسے اکساؤ نہ اسے یارو
کہ شمشیر بے نیام ہو جائے
جتنا چاہا ہے اتنا ٹھہرا ہے
کیا خبر کب تیز گام ہو جائے
کہیں ٹھکانہ ہے کیا کہ درد کو سمیٹ رکھ دیں
بکھرے ہوئےعالم وحشت کو کہیں لپیٹ رکھ دیں
نقش بنتے ہیں مٹتے ہیں بگڑ جاتے ہیں
ہیولے سے بدل بدل کے رنگ لہراتے ہیں
کچھ اورخراب حال ہے
زخم صورت اندمال ہے
ہم وہ دلگیر صفت تھے ہر بات پہ روئے
زخم کھلنے پہ روئے داغ بھرنے پہ روئے
شام کے ہاتھ میں اکثر وہ ساز ہوتا ہے
جودکھ کی دھن پہ از خود ہی بجتا ہے
پیش بندی کر نے لگے نظر انداز کرنے کی
سر جھکادیں نظر چرا لیں یا راہ بدل لیں
ارے خانہ خراب دل وائے تری قسمت
آیا بھی تو کس پہ جو مانے نہ محبت
زخم بھرنے لگا دل بکھرنے لگا
پاگل کا کیا ، غم پہ ہنسنے لگا
دل نکال کے رکھ دوں کیا سمجھ پاؤ گے
اس کے روگ سبھی اور اپنی چارہ گری
بہت کچھ چھوڑنا چاہتے ہیں
بہت کچھ چھوڑ نہیں پا رہے
ہائے یہ کیسی بے بسی ہے
جو مری ذات بن گئی ہے
تماشا فلک بھی دیکھتا ہوگا
کس کس رنگ سے کھیلتا ہوگا
کب تلک یہ لمحہ خاموش رہے گا
آگےکیا ہے اس کے پاس ، نہ کہے گا
کچھ ایسے لوگ بھی تھے یہاں
جن سے ملنا تھا زندگی کا گماں
بات کرنے لگیں تو ختم ہوکے نہیں دیتی
یہ کیا عادت ہوئی ترا تذکرہ کرنے کی
وارفتگی سےبیاں کرتے چلے گئے
فسانہ ء دل ، کوئی سنے نہ سنے
دیکھے ہیں رنگ ہزار اس زندگی کے
جو بچپنے کا تھا ، وہی بادشاہی تھا
نندیا ذرا خواب کا آج پھول کھلا
میری ریشمی باہوں میں چندا لے آ
تنی سی بات ہے نیند میں جاتے جاتے
خواب کے لئے دروازہ کھلا رکھنا
کوفت کی کہانی ہے بیزاری کی زبانی ہے
اپنی ہی پریشانی ہے غصے کی ترجمانی ہے
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپ رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے
https://raiseyourdimensions.com/category/entertainverse/verse/azra-mughal