Yadish Bakhair – 21 یادش بخیر

جو ویلنٹائن ڈے پہ عقیدہ رکھتے ہیں انہیں ویلنٹائن ڈے مبارک
جو رکھشا بندھن باندھنا چاہتے ہیں انہیں رکھشا بندھن ڈے مبارک ہو
جو لاتعلق رہنا چاہتے ہیں انہیں 14 فروری 2024 کی صبح بخیر ہو
اپنے اپنے روٹین کے کام دھندے سے لگ جائیں چپ کرکے اور بہت ہی شوق ہے تو الیکشن میں دھاندلی پر غورو فکر کرلیں اور اگلے وزیر اعظم کے بارے میں قیاس آرائی جاری رکھیں
لگے ہاتھوں غور کرلیتے ہیں
آج کون سا سیاسی لیڈر کیسے ویلنٹائن ڈے منانے والا ہے
دو سیاسی قد آور تو آج کل شدید سنگل ہیں
بیویاں اوپر وہ نیچے
بیویوں کی بد دعاوں اور بیماریوں کے ساتھ جوجتے ہوئے
صدر اور وزیر اعظم بننے کے چکر میں دوبارا
تیسرا ویلنٹائن سے دور کہیں قید بامشقت کا مارا ،
چوتھا جیالا اور کنوارا،
پانچواں پانچ ویلنٹائنز کا اکیلا سہارا ۔۔۔
چھٹی کو نہیں لگتا اپنا ویلنٹائن اب پیارا
سات آٹھ دس ۔۔۔۔
باقی چوہے بس
چور چور کھیلیں گے دوبارا
‘آئی ایم ایف ‘کے گلے میں
گھنٹی کون باندھے
گھڑی پہ چوہا ناچا
چور نکل کے بھاگا
پھپھو پیچھے آئی
دتی الیکشن دی ودھائی
تے منگی ساریاں دی کمائی
پھپھو آئی ایم فنٹاسٹک
تنوں ویلنٹائن ڈے مبارک
پھپھڑ ساڈا امریکہ سارا
من جا من جا بالم من جا
دہائی دین لگا اے
پتر پاکستان سارے دا سارا
ہیپی ویلنٹائن ڈے
ساری عوام نوں
کہ بس ہن ہور کجھ نئیں
کھان نوں نہ پین نوں
کوجھی کانی سدھی سادی ویلنٹائن تے ای
عوام دا اوکھا سوکھا
رکھا سکھا گزارا ۔۔۔۔
تے آبادی چ ہر سال دے
ودھارے تے ودھارا
پھپھی ھن کنوں کنوں دیوے
آبادی کنٹرول دا اشارا
ویلنٹائنا تیرا مطلب سمجھ گیا اے
ایتھے بچہ بچہ سارے دا سارا
ضرور پانا اے اج لال سوٹ
پھڑ کے لال پھل
تے دل دی شکل دا لال غبارا
تے لال لباں تے سجانا اے
ہیپی ویلنٹائن ڈے دا نعرا

آن لائن جو بھی شے درکار ہو گاڑی سے لے کر سوئی تک مجھ سے رابطہ کریں
میرے گھر میں اٹا ہوا سارا سامان بیچ کر رینوویشن کا ارادہ ہے
پتیلے
پودے
گملے
کپڑے
بالٹیاں
مگ
چمچے
لوٹے
چھریاں
چھابیاں
پلیٹیں
منجیاں
پیڑھیاں
کرسیاں
صوفے
بیڈ
پردے
سرھانوں کے اشاڑ
چادریں
ٹی وی
فرج فریزر
موبائل
ونڈو اے سی
سپلٹ اے سی
دھاگے کی نلکیاں سوئیاں قینچی
سلائی مشینیں
گاڑیاں
موٹر سائیکل
سائیکل
بجلی پہ چلنے والی استری
استری ہونے والے کپڑے
دھونے والے کپڑے
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
سب دگنی قیمت پر دستیاب ہے
کیونکہ اکثر اشیاء پچاس سال سے زیادہ پرانی ہیں اور اب نوادرات کا درجہ رکھتی ہیں !
اور اس گھر کے سب افراد کا شمار اب عجائبات میں ہے کہ بیشتر کا تعلق پچھلی صدی سے ہے اور انکی عادات بیسویں اور اکیسویں صدی کا انتشاری ملغوبہ شمار کی جاتی ہیں اور ہر عادت پہ ایک سوالیہ نشان یقینا بنتا ہے !؟
اور بچے۔۔۔۔ بچے اس گھر کے ناقابل فروخت ہیں کیونکہ ان
‘شیطانی پتلوں’ کی قیمت ان کے والدین کو ہی ادا کرنی ہے اور
وہی ادا کرسکتے ہیں ویسے بھی یہ ان کا قصور ہے کوئی اور کیوں بھگتے۔۔۔؟
لڑکیاں جو اب بوڑھیاں ہوچکی ہیں ناقابل ویاہ ہیں ۔۔۔۔کہ اب چڑیلیں بھی ان سے پناہ مانگتی ہیں اور ہر شریف آدمی انہیں
‘آپا’ کہنا پسند کرتا ہے
اور جو آپا نہ کہہ پائے وہ اس سیاپے سے دور ہی رہتا ہے !!
مرد اس گھر کے مردم بیزار ہیں
اور انہوں نے گھر کی ہر چیز کو بمع گھر کے افراد , اس کے حال پہ چھوڑ رکھاہے ۔۔۔۔۔
اور اسی میں سب کی بھلائی اور ان کی عافیت ہے
وہ بظاہر ناقابل فروخت ہیں مگر اس قوم کے بیشتر افراد کی طرح ان کا تن من دھن سب گروی ہے۔۔۔۔
کس کے پاس ؟
بظاہر ان کی بیویوں کے پاس مگر درحقیقت
آئی ایم ایف کے پاس, راست سوال کا معکوس جواب ہے !
میں کون ہوں ؟
میں کیا میری ہستی کیا !؟
گھر کے بڑوں کے رخصت ہوجانے کے بعد۔۔۔
میں بزعم خود , خود کو گھر کا بڑا سمجھنے کی فاش غلطی کرتی رہتی ہوں
جسے بچے بھی دل سے تسلیم نہیں کرتے
اور میرا کام وہی ہے
جو نقارخانے میں توتی کا ہوتا ہے
توتی کے سبز رنگ سے یاد آیا
سبز باغ دکھائی گئی قوم کی طرح ، حرماں نصیب ہوں

اب کچھ نیند خواب گریویٹی اور ٹائیم کے بارے میں اظہار خیال کرتی ہوں ۔۔۔تجربہ اور مشاہدہ میرا اپنا ہے میں وہم نہیں کہہ سکتی۔۔۔ دنیا جو بھی سمجھے مانے ۔۔۔
شروع ایک احمقانہ موشگافی سے کرتی ہوں
میں زمین پہ کھڑی ہوں ۔۔۔ زمین اور میرے بیچ گریویٹی کم ہے ( میرا ذاتی خیال ہے)
۔۔۔ سوتی ہوں تو میرے اور زمین کے درمیان( ماس)
کے حساب سے گریوٹی کا تناسب بڑھ گیا اگرچہ بقول سائنس کے وزن اور گریویٹی پروپورشنل ہیں ماس کا غالبا کوئی رول نہیں۔۔۔ (واللہ اعلم )
مگر اس وقت آپ میرے حساب سے گریوٹی کو دیکھیں
جاگ رہی ہوں گریوٹی کم ہے
سورہی ہوں گریوٹی زیادہ ہوگئی
سو گئی ہوں ۔۔۔ بے خبر ہوں شعوری طور پر ۔۔۔۔گریوٹی بڑھ گی
میری گریوٹی بڑھ گئی ہے
میرا ٹائیم بھی سست رفتار ہوگیا ہے
ٹائیم سست رفتار ہے تو میرے لاشعور کو ایکٹیویٹ ہونے کا مناسب وقت اور موقع مل گیا ہے آرام سے اٹھا ۔۔۔سیر سپاٹے شروع ہوگئے ۔۔۔نیند خواب بنانے لگی لاشعور کہیں ماضی کہیں حال میں ربط بے ربط سے واقعات چہروں کو جوڑ اور ٹوٹی پھوٹی کہانیاں بنا رہا ہے۔۔۔ ہاں کسی وقت کسی مجھ جیسے کا لاشعور اس طاقتور پوزیشن میں آجاتا ہے کہ جاگ سے زیادہ نیند میں کمالات کا مظاہرہ شروع ہوجاتا ہے ۔۔۔ اب خواب ایک ٹائیم مشین سا بنا ہوا ہے میں بہت سے گزرے واقعات دیکھتی ہیں حال سے جوڑتی ہوں اور مستقبل میں نتائج بھی دیکھ لیتی ہوں ۔۔۔مطلب ماضی حال مستقبل کا مشاہدہ میں ایک سچا ہونے والا خواب دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ مستقبل طے شدہ امر ہے
ہاں میرا خواب جو سچی خبر لاتا ہے کہیں مستقبل میں جاکر تو طے ہی ہوگا ( واللہ اعلم )
ایسے بے شمار تجربات سے گزری ہوں سنس دا چائلڈ ہڈ۔۔۔ مگر توجہ نہیں تھی نو لفٹ ۔۔۔ پھر جب سلسلہ بہت بڑھا تو توجہ دی کہ یہ ہو کیا رہا ہے !؟
چلو سچے جھوٹے خوابوں کو یہیں چھوڑتے ہیں اس نوٹ کے ساتھ ۔۔
کہ سائنٹسٹ جس نے بینزین کا مالیکیول دریافت کیا وہ اسکا مالیکیولر اسٹرکچر سمجھ نہیں پارہا تھا ۔۔۔
ایک رات خواب میں دیکھا ایک سانپ ہے جو اپنی دم چبا رہا ہے ۔۔۔۔ بنینزین رنگ کا اسٹرکچر سمجھ میں آگیا
اب پھر شروع کرتی ہوں اپنی سائنس ۔۔۔
سورہی ہوں ۔۔۔گریویٹی کا تناسب بڑھا ہوا ہے وقت سست رفتار ہے لاشعور ایکٹو ہے خواب دیکھ رہی ہوں جو اکثر سچے بھی ہو جاتے ہیں
میری ایک رات ۔۔۔ بہت طویل ہے کہ میرا وقت میری گریویٹی کے تناسب سے بہت سست رفتار ہے
اور یہ خوشقسمتی ہے میری کہ میں ایک رات میں چار پانچ راتوں جتنی بھرپور نیند سوتی ہوں
92 ۔93 میں پہلا تجربہ تھا جس نے دھیان اس طرف متوجہ کرایا اللہ بخشے بی بی (نانی) حیات تھیں میں اور
بی بی گرمیوں کی رات صحن میں سو رہی تھیں رات گیارہ تک ہم سب نے گپیں لگائی تھیں ۔۔۔
اچانک زور سے دروازہ دھڑ دھڑایا کسی نے ۔۔۔باہر شور مچا ہوا تھا لگا جیسے چور آگئے ہیں ۔۔۔ ماموں نے اوپر سے پوچھا
کون ہے ۔۔۔کیا ہے ؟
سائیں آپ کے گھر کے پیچھے کونے میں آگ لگی ہوئی ہے شعلے اور دھواں اٹھ رہا ہے ۔۔۔چوکیدار نے جواب دیا
اچھا ماموں دوڑ کر اوپر گئے ۔۔۔ ہمارے نہیں برابر کے گھر میں آگ لگی۔۔ ہوئی تھی ایک ڈیڑھ گھنٹہ لگا کر سب آس پاس کے گھر والوں نے مل ملا کر بجھائی
ہم بھی شکر کرکے دوبارہ سو گئیں ۔۔مگر ایک خوف کے عالم میں کہ پھر نہ کوئی چنگاری بھڑک جائے میری ہر گھنٹے بعد آنکھ کھل جائے ۔۔۔ مگر اس طرح جیسے پوری رات سو کر نیند پوری کر کے جاگی ہوں بار بار میں سوتی جاگتی رہی ۔۔۔ مگر وقت جیسے رکا ہوا تھا نیند پر سکون پوری ہوتی ہوئی مگر رات آگے بڑھنے کا نام نہ لے ۔۔۔ صبح ہوئی تو شکر الحمد للہ کیا۔۔۔
بی بی آج رات کنی لمی سی مک نئیں سی رئی”
آہو نی ۔۔۔ میں کہیا خورے مینوں سی لگی اے “
مجھے تو لگ رہا تھا جیسے آگ لگنے کا واقعہ دس دن پہلے کا ہے ۔۔۔:آخر ایسا کیوں لگ رہا ہے( واللہ اعلم )
پھر تو تواتر سے میری نیند اور وقت کی آنکھ مچولی شروع ہوگئی ۔۔۔ سوجا راجکماری سوجا ۔۔۔ جتنا مرضی ، وقت تیرا ہے آج تک یہی مہربانی ہے وقت کی مجھ پہ ۔۔۔
عمرے پر جانا تھا صبح چار بجے گھر سے نکلنا تھا
یا اللہ نیند پوری ہوجائے رات کو فائنل تیاری کرکے بارہ کے قریب ۔۔اسی سوچ میں سو گئی ۔۔۔ فکرمندی میں رات تین چار بار آنکھ کھلی ۔۔۔ مگر بھرپور اور پوری نیند سو کر کہ رات بہت سی باقی تھی ہربار ۔۔۔
اسی طرح واپسی میں نیند اور وقت کا ٹوٹکا کامیاب رہا ۔۔۔
آج تین بیس پہ آنکھ کھلی ۔۔۔کبھی تہجد پڑھ لیتی ہوں پانچ بجے فجر کا وقت ہے ۔۔۔ سوچا سوجاتی ہوں دوبارہ خود ہی وقت پہ آنکھ کھل جائے گی جیسے پوری رات بھر کی نیند دوبارہ سوگئی آنکھ کھلی تو ساڑھے چار ۔۔ پھر سوگئی جیسے دوتین گھنٹے آنکھ کھلی تو پونے پانچ
لگتا ہے اللہ کو بھی میری نیند پیاری ہے بھرپور سلاتا ہے ٹائیم روک کر ۔۔ ۔۔
آج سے نہیں کم ازکم بیس تیس سالوں سے یہ نوٹ کرکے اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کر رہی ہوں ایک ٹوٹکہ ۔۔۔ ہاہاہا
کالج جانا ہے ۔۔۔ آنکھ کھل گئی ابھی اٹھنے کو دل نہیں چاہا ٹائیم سات بجے ہیں میں عموما آٹھ بجے اٹھتی تھی دادو میں بھی ۔۔۔کالج ٹائیم نو بجے تھا اب سات بجے آنکھ کھل جائے تو اٹھ بجے نیند سے دوبارہ جاگنا رسکی ہو جاتا ہے میں کبھی کبھار ہی دوبارہ سوتی ۔۔۔ مگر پھر میں نے نوٹس کیا اگر میں سوجاوں تو ۔۔۔آٹھ سے نو بہت دیر میں بجتے ہیں کہ جیسے میں تین گھنٹے سو لیتی ہوں مزید ۔۔۔
پھر سونے کی بجائے میں نے جاگ کر ۔۔۔ مگر آنکھیں بند کر کے وقتا فوقتا وقت کا جائزہ لینا شروع کیا ۔۔۔ کبھی کبھار کوئی بات ہو تو اگنور ہوجاتی ہے مگر روز ہو تو آپ نوٹس کر نے پر مجبور ہوجاتے ہیں
یہی جائزے اور تجربے ثابت ہوتے گلبرگ کالج تک کہ ۔۔۔ ٹائیم کا جن مجھ پہ مہربان ہے مجھے کنفرم ہوگیا ۔۔
ساڑھے ۔
سات بجے آنکھ کھل گئی آٹھ بجے اٹھنا چاہتی ہوں آرام سے
آنکھیں بند کرلیں ۔۔۔البتہ اب میں احتیاطا جاگ رہی ہوں آدھ گھنٹہ آنکھیں بند ہیں ۔۔۔سوچتی ہوں آٹھوں آٹھ بج گئے ہونگے ۔۔۔ ٹائیم پہ نظر پڑتی ہے سات پینتیس ۔۔۔ مطلب صرف پانچ منٹ گزرے ہیں
اس طرح آنکھیں بند کر کے یا سو جاگ کے میں اپنا آرام اور وقت اپنی مرضی کا طویل کر لیتی ہوں۔۔۔ہاہاہا
ہے نا مزیدار ٹوٹکا ۔۔۔
جب جاگتی ہوں تو پھر وقت میرے قابو میں نہیں ہوتا اسی رفتار سے دوڑاتا ہے جس رفتار سے رکا تھا پھر بھاگم بھاگ گھڑسوار جیسے۔۔۔
کچھ لکھتی ہوں

سوتی ہوں تو مرا وقت بھی ٹھہر جاتا ہے
آنکھ کھلتے ہی یہ
خوشی کی جست لگاتا ہے اور
اڑنا شروع کر دیتا ہے
وقت مجھ پہ مہرباں ہے اس قدر
کہ سوجاوں تو رک جاتا ہے
اس قدر سست رو کہ جیسے
لمحہ لمحہ صدیاں گزار دے گا یہیں
اسی لمحے پہ
مجھے دیکھتے ہوئے ۔۔ ۔۔۔
اور آنکھ کھلتے ہی
خوشی سے یوں جست بھرتا ہے
کہ پکڑتی ہی رہ جاتی ہوں
یہ گھڑ سوار ہے
دوڑتا ہی جاتا ہے
وقت کا اور میرا
کوئی خاص رشتہ ہے
جو یہ میری نیند کے اشارے پہ رک جاتا ہے
اور آنکھ کھلتے ہی دل سے مسکراتا ہے
اور چھلانگ لگا کے مرے خواب کدے سے یہ باہر
مرے راستے میں تیز رفتاری کا
سبز جھنڈا لہراتا ہے ۔۔۔
ہری اپ ۔۔۔ ہری اپ ۔۔۔

ہم سب بیٹھے ہیں لاہوت ہالار میں رضیہ طارق خوشگوار موڈ میں ۔۔۔ اچانک طارق اٹھتا ہے میرا دوپٹہ کھینچ لیتا ہے کہ رضیہ گھر میں دوپٹے کی زحمت نہیں کرتی اکثر ۔۔۔
دوپٹہ کھینچنے پر بچے گھبرا کر اور چونک کر باپ کو دیکھتے ہیں ۔۔۔کہ ابا کیا کرنے لگا ہے سر عام ۔۔۔
وہ دوپٹہ لے کے ڈانس شروع کر دیتا ہے۔۔۔ بچے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں
بیچ بیچ میں مکرانی ڈانس کے سینے کے ایسے ایسے ایکشن دیتا ہے کہ ۔۔۔ہم لوٹ پوٹ سے بھی آگے ہنستے ہنستے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کو ہیں
صبح صبح آفس جانا ہے
میں منتظر ہوں کہ واش روم سے نکل کے دوپہر کھانے اور گھر کے بارے میں چند ہدایات مجھے دے کر دوسرے کمرے میں جائے گا ۔۔وہ دونوں آفس جائیں گے ۔۔۔ وہ ساحل سمندر کے کاسٹیوم میں باتھ روم سے ایک سمارٹ دوشیزہ کے روپ میں بر آمد ہوتا ہے اور میرے سامنے کیٹ واک شروع کر دیتا ہے ۔۔۔
میں شرارتا تصویر بناتی ہوں وہ اور زیادہ دلکش پوز بنا کے کھڑا ہو جاتا ہے
رضیہ اور بچوں کو دکھائی بعد میں تو ان کی ہنسی بھی رکنے کو تیار نہیں ہوتی ۔۔۔
خدا کا واسطہ ہے ۔۔۔افس جاؤ
میری ہنسی نہیں رکتی سوچتی ہوں کتنا پیارا اور خوش مزاج انسان ہے یہ ۔۔۔
دوسرے تیسرے دن ہاسپٹل بھی جانا ہے حالت کریٹیکل ہو رہی ہے مگر وہ ہنسانا نہیں بھولتا ۔۔۔
اگرچہ رلانے میں بھی پی ایچ ڈی کر رکھی تھی
(شائید)
بہت ستایا بہت ستایا ۔۔۔
اتنا کہ جیسے سولی پہ ہی ٹانگ رکھا تھا
ذاتی طور پر اچھا انسان ہی تھا فیملی کے سارے لوگ بے انتہا لونگ اور کئیرنگ ۔۔۔ مگر دو عورتوں کا معاملہ نری پیچیدگی ہی پیچیدگی تھی ۔۔۔اور اس پیچیدگی کو وہ سارا کا سارا میرے کھاتے میں ڈال کر سکھ چین سے وقت گزار رہے تھے ۔۔۔ عزت نفس اور بے توجہی بے مائیگی اور ہر کمی بیشی کا بھگتنان تم ہی بھگتو گی
عذرا
بی بی ۔۔۔ یہ جیسے ان دونوں کا سلوگن تھا
سہو اور رہو ۔۔۔سہن شکتی نہیں ہے تو دروازے کھلے ہیں ہماری طرف سے آنے سے زیادہ جانے کے ۔۔۔بس ایک امتحان تھا جس میں مر مر کے سرخرو ہوئی ۔۔۔ کہ واپسی کے دروازے میں نے در کی بجائے دیوار سمجھ رکھے تھے
جب ہنسانے پہ آتا تو بہت زندہ دلی سے ہنستا تھا اور ہنساتا تھا ۔۔۔
سندھ یو نیورسٹی اس کے زندہ دل قہقہوں سے گونجتی تھی ۔۔۔ دوستوں میں مشہور قہقہہ باز
۔۔۔طارق کے قہقہے ۔۔۔طارق کے قہقہے ۔۔۔اگر یہ ذکر نہ ہو تو دوست بات کیسے کریں اس کی ۔۔
گہری نیند سورہا ہے ہلکے ہلکے خراٹے گواہ ہیں ۔۔۔مجھے شرارت سوجھتی ہے وڈیو بنالیتی ہوں خراٹوں کی ۔۔۔ اس قدر آہستگی سے کہ وہ سوتا ہی رہا بے خبر ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد نارمل انداز سے جاگ کر ۔۔۔
پانی لادو “
میں کچن میں چلی جاتی ہوں
وہ پانی پی رہا ہے
میں موبائل اٹھاتی ہوں کہ خراٹوں والی وڈیو دکھاؤں اسے ۔۔۔
پہلی وڈیو کھلتی ہے
اس کا ہاتھ ‘کھلا ‘ دے رہا ہے مجھے ۔۔۔ ہاہاہا
میری وڈیو ڈیلیٹ ہوچکی ہے
ناشتے کی ٹیبل پر ہیں ۔۔۔وہ گرم چائے میں چینی گھماتا ہے ۔۔چمچہ میرے ہاتھ کی پشت پہ رکھ دیتا ہے
سی ۔۔۔ “
یہ کیا ہے ؟
رضیہ مسکرانے لگتی وہ بھی ایسی “سی سا “کی عادی یے
جسے غافل دیکھتا یے اسکے ہاتھ یا کلائی پہ چائے کا گرم چمچہ ۔۔۔
ایک دن خود غافل ہے
میرا چمچہ اس کی
“سی” نکال دیتا ہے
جس پر مجھے سنجیدہ ڈانٹ پڑتی ہے رضیہ اس کی ‘سی ‘ پر بھی مسکرا رہی ہے مجھے ڈانٹ ڈپٹ پر بھی ۔۔۔ بہرحال آئندہ پھر کبھی یہ حرکت نہ کی اس نے بھی کہ’ سی ‘ کی حقیقت جان گیا تھا ۔۔۔ہاہاہا

آج دوپہر کا انتہائی دلچسپ خواب
دوپہر سوگئی تھی بہت دنوں بعد آج ۔۔۔ ساری زندگی پہلے عادی مجرم تھی دوپہر کو سونے کی ۔۔۔بہرحال اب کبھی کبھار سوتی ہوں
خواب میں مارفیس بلے ، کو دیکھا بہت صاف ستھرا سفید اور خوبصورت ۔۔۔ جو اب وہ نہیں رہتا جب سے آوارہ گرد ہوا ہے ہاں دوسال پہلے جب نیا نیا آیا تھا ساری سردیاں میرے کمبل پہ پڑا سوتا تھا بہت سفید تھا۔۔۔ بہت سی تصویریں بھی ہوں گی اس کی آرام فرماتے ہوئے۔۔۔ اب گھر میں کبھی کبھار ہی آتا ہے اور ڈائریکٹ اوپری منزل پہ جاکر ابلا چکن کھا کر پھر نو دو گیارہ ۔۔۔
خیر خواب میں دیکھا وہ گھر آیا ہے بہت اجلا سفید اور آنکھ بھی ایک نیلی ایک براون بہت خوبصورت اور واضح سی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا ہے
پہچان گئے ہو مجھے ۔۔۔ “
دوسال پرانی رفاقت میرے ذہن میں آتی ہے
میں اسے پیار کرتی ہوں دونوں ہاتھ سے اس کے گال سہلا کر۔۔۔ وہ اپنے سارے ناخن دبائے الٹا میرے چہرے گالوں ہونٹوں کو سہلانے لگا ہے اور مجھے دیکھے جارہاہے ۔۔۔
بہت ہی پیار کا اظہار کر رہا ہے ایک بار میں ڈرتی بھی ہوں پنجے نہ نکال لے ۔۔۔مگر اس نے سہلاتی مٹھیاں اور دبا لی ہیں ۔۔۔
پتہ نہیں کب سے پیار کا پیاسا ہے ۔۔۔ہاہاہا
میں بھی لاڈ سے کہتی ہوں
پہچان گئے ہو ۔۔۔
لگتا ہے اس نے دوسال بعد مجھے دیکھا ہے
ایک فیس بک فرینڈ پوچھتی ہے
کیا کھلاتی ہو اسے سپیشل)۔۔۔ جو اتنے لاڈ کر رہا ہے
میں نے تو اسے کبھی روٹی کا ٹکڑا بھی نہیں ڈالا
اسی مارفیس کے پیار پیور پہ خواب دی اینڈ ہوگیا ۔۔۔۔ ہاہاہا
آج آیا تو اس سے خاص طور پر ملوں گی
بلی کے خواب میں چھیچھڑے میرے خواب میں بلا ۔۔۔ یہ تو کھلا تضاد ہے ۔۔۔جاتا اپنی کسی بلی کے خواب میں ۔۔۔ہاہاہا

پرنسپل کا چارج سنبھالا تو ۔۔۔
چھ ماہ کے بعد ایک پرانے کولیگ اور ریٹائرڈ پروفیسر صاحب کسی ذاتی کام سے تشریف لائے
جھجھکتے ہچکچاتے مدعا پیش کیا جو بہرحال کالج سے متعلق نہ تھا پبلک میٹر تھا مگر تعاون کی درخواست کے ساتھ
“میں بہت دنوں سے آنا چاہ رہا تھا۔۔۔ آپ کو چارج سنبھالنے کی مبارک باد بھی دینا تھی مصروف تھا کچھ ۔۔۔ میں نے سوچا آج دے کر آوں۔۔۔ “
غائب دماغی میں ان کے منہ سے پروفیسر ی جملہ پھسلا
“آپ کو عید مبارک ہو۔۔۔”
ہاہاہا ۔۔ میں ہنسنے میں حق بجانب تھی اور وہ حیران ہونے میں
انہی پروفیسر صاحب کا ایک اور بڑا دلچسپ قصہ تھا
گھر میں کچھ مہمان آرہے تھے سب سے پہلے مرغی خرید کر پنجے باندھ کر چھبی میں رکھی اس کی حرکات و سکنات کنٹرول کرتے دو کلو آلو پیاز ٹماٹر جملہ فروٹ کی اقسام لیتے گئے ٹوکری میں ڈالتے گئے ۔۔۔ بڑی سی ٹوکری میں سات آٹھ کلو وزن اٹھائے ہانپتے کانپتے گھر پنہچے۔۔۔ ایک ایک کرکے سارا وزن باہر نکالا ۔۔۔ آخر میں نیچے دبی مرغی کی باری آئی تو وہ بے چاری مرحومہ نکلی
پروفیسر صاحب بہت سٹپٹائے کہ
‘یہ کیا اور کیسے ہوگیا’
بہرحال مہمانوں کو یقینا آلو کا شوربہ ہی نصیب ہوا ہوگا ۔۔۔۔
آخر تو غائب دماغ پروفیسر کے مہمان تھے

میاں رکشہ چلاتا ہے
وہ خود لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے بچت کے نام پہ زبردستی کمیٹی ڈالے رکھتی ہے ایک پسماندہ ترین علاقے میں ڈیڑھ مرلے کا پلاٹ لے کر اوپر نیچے ایک ایک کمرہ اورچھوٹی سی صحنچی بنالی ہے خود اوپری ادھ پورے کمرے میں رہتی ہے چار بچے دو میاں بیوی ۔۔۔۔ نیچے کا کمرہ اور صحنچی دو چار ہزار کرائے پر اٹھا دیا ہےبجلی کے بل بچوں کے اسکولی اخراجات بھی پورے کرنے ہیں
کھانا پینا انتہائی سادہ اور غالبا ایک یا ڈیڑھ وقت کھاتے ہیں بچے بھی کھیلتے کھالتے بھوک پیاس کو نظر انداز کئے رکھتے ہیں کل منہگائی سے سٹپٹائی ہوئی تھی
“باجی۔۔۔ میں کہیا بچیاں نوں مولی دے پراٹھے بنا دینی آں اج سالن نئیں بناندی۔۔۔۔ میرا بندہ کنہدا گھیو انہا منہگا ہوگیا اے پراٹھے نہ بناو مولی دی بھرجی بنا کے روٹیاں پکا لئو
کدی چاء پراٹھے دا ناشتہ کرلئی دا سی ھن اوہ وی گیا۔۔۔ رکھے رس تے چاء روز اوھئی کھالئو ددھ میرے ابے نے مجاں رکھیاں ہویاں نے کلو ادھ اوہ دے چھڈ دا اے ۔۔۔۔ دن چ اک وری سبزی کدے آلو کدی دال بنالئی دی سی۔۔۔ اگے اللہ خیر کرے اسی چھ جی آں دس کلو آٹا پنج دن نئیں چلدا۔۔۔۔ آٹا چینی گھیو تے بلاں توں ای امان نئیں ۔۔۔ سبزی بھاجی کی کھانی۔۔۔ دس روپے دا اک ٹماٹر کوئی سبزی اک سو ویئاں تو گھٹ نئیں۔۔۔۔ کپڑا بچیاں دا کوئی نئیں بنائی دا دو بچیاں نوں یونیفارم لے دتے دو دے ھن بوٹ گھسے ہوئے نیں کدر جائیے کی کرئیے۔۔۔ رکشے دا پٹرول وارا نئیں کھاندا اتوں ہور ودھ گیا اے۔۔۔انی سواری نئیں لبھدی ۔۔۔ تنگ آگئے آں”
یہ ہے پاکستان کے اسی فیصد لوگوں کی کسمپرسی کی کہانی , اس خاندان کا شمار اپنے دوسرے اقربا کی نسبت بہتر لوگوں میں ہوتا ہے کہ یہ ڈیڑھ مرلے کے مکان اور رکشے کے مالک ہیں باقی کا حال تو اللہ جانتا ہے یا وہ خود ۔۔۔

“روتے دھوتے غریب مر مر کےجی رہے ہیں
زندگی ہے یا کوئی زہر ہے پی رہے ہیں”

هائی اسکول تک میں ایک سنجیده سی پڑھا کو لڑکی تھی جو کبھی کبھار چھوٹی موٹی شرارت کرلیتی تھی مثلا کلاس فیلوز کی فئیر نوٹ بکس په انهیں ڈانٹ سے بچانے کیلئے ٹیچر کے سائن کردینا ، اپنی نوٹ بوک بھی چیک کرکے سائین کرلینا مجال هے جو کس معصوم ٹیچر کو شک گزرا هو حالانکه اپنے بعض اسٹوڈنٹس کی یه وارداتیں میں فورا پکڑ لیتی هوں ، یا سلائ کڑھائی کے پیریڈ میں سارا وقت زمین په گری سوئی تلاش کرتے رهنا ، ایسی سوئی جسکا وجود هی نه هوتا تھا…..هاں مگر کالج جاتے هی مجھے اندازه هوا میری فرینڈز کی ھنسی چھوٹ چھوٹ جاتی هے میری باتوں پر ، میں نے کلاس روم میں پڑھائی کے دوران نوٹ بک په لکھ لکھ کر یه کام تندهی سے شروع کردیا ، سزا میں جو بھی کھڑی هوتی هنسی پورے گروپ کی چھوٹ چھوٹ جاتی ، سوائے میرے که میں بهت سنجیده اور پڑھاکو لڑکی کی جاندار ایکٹنگ کی بھی ماهر فن تھی هنسی کا طوفان رکتا نهیں که پھر مجھے کوئی جمله سوجھ جاتا بلیک بورڈ اور ٹیچر پر نظر جمائے لکھ کر ساتھ والی کی طرف بڑھا دیتی که وه بھی نوٹس لےلے ، اور پھر کسی نه کسی کاپین نیچے گرجاتا جسکے بهانے وه نیچے بیٹھ کر بے آواز هنس هنسا کر پھر سنجیده شکل بناکر اور پین والا هاتھ پهلے باهر لهراتی هوئی که یه اٹھانے کو جھکی تھی، اٹھ کر بیٹھ جاتی…… بی ایس سی میں پریکٹیکلز کے دوران خاصا وقت مل جاتا تھا اپنے طور پر هنسنے هنسانے کے لئے ، اس هنسی کو ذرا سا بریک اس دن لگا جب گروپ کی سب سے حسین لڑکی کا پانی سے بھری کیاریوں میں مالی کو ڈرانے کے چکروں می ںسوڈیم پھینک کر آگ لگانے کاتجربه ، هنسی اور شرارت کی وجه سے کیاری پر منه بهت نیچا کرنے کی وجه سے جھلس گیا کسی نے کسی کو اس شرارت کی هوا نه لگنے دی جب تک که وه دوباره گوری چٹی نه هوگئی آئنده پریکٹیکل شرارتوں سے پرهیز کرکے صرف اور صرف لفظی نوک جھونک په گزارا کرتے رهے هم سب ، که پڑھائی کا بوجھ اسی طرح هلکا هوتا تھا آج تک زندگی کا بوجھ اپنا بھی دوستوں کا بھی هلکا کرنے کی کوشش میں لگی رهتی هوں هنس هنسا کر

ہھپھوجی اج سارا دن وڈا دروازہ بند رکھیو
اوں ۔۔۔
پھپھو جی سن رئے او
ہاں ۔۔۔آں
پھپھو جی دروازہ بند رکھیو ۔۔۔ سارا دن
کیوں ۔۔۔؟
فوگ ویکھ رئے او بار ۔۔۔ ساری اندر آوڑے گی
لاہور میں فوگ کی شدید صورتحال اور انس ( بڑے صاحب ) کی مجھے ہدایت
ماشا اللہ سے یہ اپنے باپ کا بھی باپ اور بزعم خود گھر کا بڑا بنا رہتا ہے جب سے قد نکالا ہے اور گھر کے سست ادھڑے چاول دیکھے ہیں ۔۔۔ہاہاہا
اللہ سلامت رکھے آمین اور سلامت رکھے ہم سب کے پیارے سارے بچوں کو (آمین ثم آمین )

میری ترکیب سے کھانا پکائیں بہت آسان اور مزیدار ۔۔۔
جو بھی پکانا ہے دھو کاٹ کر کوکنگ پاٹ میں ڈالیں پیاز لہسن ادرک نمک مرچ ہلدی دھنیا ٹماٹر گرم مصالحہ اٹرم پٹرم ۔۔۔ حسب ضرورت پانی سبزی ہے تو بہت کم چھٹا سا ، گوشت ہے تو مناسب ۔۔۔چولہے پر رکھ دیں ( آگ ضرور جلائیں ۔۔۔ میری مشکل یہی ہے کہ ماچس یا لائٹر بہت مشکل سے ملتے ہیں کسی نہ کسی کو ڈھونڈ کر مجھے پکڑانا پڑتے ہیں)
اپنا سارا کچا چٹھا چولہے پہ چڑھا دیں ۔۔۔ بے فکر ہوکر ٹی وی یا موبائل میں مصروف ہو جائیں
پندرہ منٹ بعد آٹھ کر ایک بار چمچ چلا آئیں پھر کچن چھوڑ کر جہاں مرضی بیٹھ کر جو مرضی کریں ۔۔ پندرہ منٹ بعد پھر جائیں چمچ چلا کر دیکھیں آپکا سالن میرے حساب سے تیار ہوچکا ہے کٹا دھنیا ایک دو ہری مرچ ڈالیں خوشبو ذائقے کے لئے ۔۔۔ چولہا بند ڈھکن بند پانچ منٹ بعد اتار لیں ۔۔۔ روٹی چاول آپ کا درد سر ہے خود پکائیں یا تندور سے منگوائیں ۔۔۔ کھانا تیار ہے
اور اگر آپ یہ کوکنگ مائیکرو ویو یا اوون میں کریں تو پندرہ منٹ کافی ہے اوون میں ایک بار رکھ دیں پندرہ منٹ بعد نکال لیں ۔۔۔ حسب ضرورت ٹائیم اور ریسیپی میں تھوڑا بہت تغیر و تبدل کرلیں حسب سمجھ اور ایکسپرٹیز ۔۔۔۔
اگر وقت کی کمی ہے تو چھٹی کا ایک دن لگائیں سبزیاں گوشت کاٹ صاف کرکے قربانی کے گوشت کی طرح الگ الگ پیکٹ بنائیں ٹماٹر ادرک لہسن پیاز سب ۔۔۔اب اسی پیکٹ میں حسب ضرورت سے (ذرا کم )نمک مرچ سارے مصالحے اور آئل ڈال کے فریز کر دیں ۔۔جو کھانے کا من ہو پیکٹ نکالیں تھوڑا سا پانی ڈال کے پکنے رکھ دیں آخر میں دھنیا ہری مرچ تازہ کاٹ کے ڈال دیں خصوصا جاب پہ جانے والی خواتین میری ریسیپیز سے استفادہ کر سکتی ہیں اور روز روز کی کھیچل سے بچ سکتی ہیں ۔۔۔
کوشش تو کریں کہ تازہ خریدیں تازہ پکائیں مگر مصروفیت اور مجبوری کا شکریہ ۔۔۔ہر آپشن کھلا رکھیں
بھئی میں اب جب بھی کچھ پکاوں ایسے ہی بناتی ہوں میری وجہ مصروفیت سے بڑھ کر پیروں اور کمر کی تکلیف ہے کہ کچن میں کھڑا رہنا مشکل ہے میرے لئے ۔۔۔ کبھی کوئی کوکنگ توجہ طلب ہو تو کرسی رکھ کے بیٹھ جاتی ہوں کوکنگ مجھے پسند ہے مگر اب بہت ہی کم کرتی ہوں چند ماہ بعد کبھی کبھار ۔۔۔۔ ذائقہ لاجواب ہوتا ہے میرے حساب سے
ایک بار جامشورو کے کچن میں کچھ پکا رہی تھی رضیہ کی مہمان آئی سگھڑ امی کا خیال تھا میں بھی اس کی پیاری بیٹی کی طرح پھوہڑ شیف یوں وہ جب بھی آتیں خود کھانا پکاتیں اور کھلاتیں ۔۔۔مجھے پکاتا دیکھ کر کچن میں چلی آئیں ۔۔۔
ہدایات دینے لگیں کہ اس کو بھی سکھا دوں بیٹی سمان ہی یے
نمک اتنا ڈالو مرچ اتنی ۔۔۔پیاز ایسے بھونو ۔۔۔ مجھے لگا میرا اندازہ ان سے بہتر ہے
رضیہ نے والدہ کو چٹک کر کہا
اماں ۔۔۔ آپ آجائیں کچن سے اس کا اندازہ بہت اچھا ہے ، اچھا بنائے گی “
ہماری شادی کی پہلی دعوت بھی رضیہ کے بھائی اور امی نے ہی کی تھی شادی کے تیسرے دن ۔۔۔ پہلے دن انہیں پتہ چلا دوسرے دن وہ ملنے آئے سب تیسرے دن ہم سب ان کے ہاں مدعو تھے پتہ نہیں کیسے کلاسک سے لوگ تھے حیران کرتے ہوئے )
طارق سے سب پیار بہت کرتے تھے یقینا اس لئے اس کی ہر بات کو سر تسلیم خم ۔۔۔ باقی سب معاملات کو سنبھالنے والی رضیہ کی سمجھداری ایک الگ ہی مقام پر تھی
تو گویا ہم دوست
دشمن بھی معترف تھے۔۔۔ یہی تو خوبی تھی کہ ہم ایک دوسری کی کسی بھی خوبی کو دل سے سراہتی تھیں ۔۔۔۔ جیسے بھئی اس کا سلیقہ مثالی تھا کپڑے دھوبی کو دھلنے جارہے ہیں اس طرح تہہ شدہ بندھے ہوئے کہ مجھے لگتا استری کرکے رکھے ہیں پتہ تب چلتا جب دھوبی کو دئے جاتے ۔۔۔ جو دراز کھول لو الماری کھول لو جب کھول لو سلیقے اور ترتیب سے سجا ہوا ۔۔۔ پورے گھر میں صرف ایک میری الماری تھی جو بے ہنگم ہونے کی گواہی دیتی ۔۔۔ کبھی کبھار میری غیر موجودگی میں وہ بھی سیٹ کر دیتی ۔۔۔ شروع میں سب کے کپڑے استری کرتی تو میرے بھی کر کے ٹانگ دیتی ۔۔۔ طارق کو یہ بات پسند نہ آئی اس کے کپڑے کیوں استری کرتی ہو یہ خود کرے گی ۔۔۔ چلو جی ٹھیک ہے ۔۔ میں اگر کھانا پکانا کر رہی ہوں (باورچی تھا ویسے گھر میں روزمرہ کوکنگ کے لئے کہ میں تو ویک اینڈ پر ہی ہوتی تھی اور رضیہ کو تو سبزی کاٹنا بھی نہیں آتی تھی کبھی کبھار طارق اپنے حساب سے موٹا جھوٹا کاٹ دیتا باورچی اگر گاؤں گیا ہوتا آلو یا سبزی کا کوئی ٹکڑا بڑا کوئی چھوٹا کوئی ٹرائینگل کوئی مربع کوئی مستطیل کوئی پچر سا کوئی فربہ ۔۔۔ رضیہ کو چھری پکڑنا نہیں آتی تھی مجھے تو دیکھ کر ہنسی آجاتی کہ یہ پکڑ کیسے رکھی ہے ۔۔۔ طارق بہت شوق اور ارمان سے میرے ہاتھوں پہ نظر گڑا دیتا جب میں فٹا فٹ سبزی کاٹ بنا رہی ہوتی ۔۔۔ میں اسے چھری دکھا کر قاتلانہ حملے کا اشارہ کرتی اس کی ہنسی چھوٹ جاتی ۔۔۔ایسے تو کبھی میری شکل پہ غور نہیں کرتا ہے )
رضیہ کپڑےاستری کرتی تو وہ ایک ساتھ سب کے استری کر دیتی ۔۔۔ مگر اسے میرا سوٹ ناگوار گزرا خدا گواہ ہے رضیہ کو نہیں طارق کو ۔۔۔ ہاہاہا
طارق کے کپڑے کتابوں کی الماری میرے کمرے میں تھی ۔۔۔استری کرکے سیٹ کرنا ، کپڑےہینگ کرنا ، رضیہ کا طارق سے مثالی پیار الماری کو بھی مثالی رنگ دئیے رکھتا ۔۔۔
مزے کی بات ہے یہ وسیع و عریض چالیس ام کے درختوں والا سرکاری بنگلہ رضیہ کی جاب اور ہاؤس رینٹ پہ تھا کہ اس کی جاب سندھالوجی سندھ یونیورسٹی میں تھی جس کے بڑے بڑے سرکاری بنگلوز تھے طارق کی سندھی ادبی بورڈ میں جن کی کوئی ہاؤسنگ فیسیلٹی نہ تھی
ان کا اپنا گھر سوسائیٹی میں کرائے پر دیا ہوا تھا ۔۔۔ جب اس گھر میں شفٹ ہوئے پرانے گھر سے تو کمال مہربانی سے دونوں نے پہلا حق مجھے دیا کہ کون سا کمرہ لوگی ۔۔۔ میں نے شروع والا باہر کی سمت جو صحن میں کھڑکیاں کھلتی تھیں گیٹ سے آتے ہی روشن اور ہوا دار سا وہ پسند کیا
طارق نے کہا “مجھے پتہ تھا یہی لے گی یہ “
شائید رضیہ کو بھی وہی کمرہ پسند تھا مگر اس نے فراخدلی سے کہا دوسرے کے بارے میں
میرے لئے وہی ٹھیک ہے بچوں ٹی وی لاونج کچن سے بھی قریب ہے مجھے گھر سنبھالنے دیکھنے میں بھی آسانی رہے گی “
وہ ہر چیز پہ بڑی فراخدلی سے سمجھوتہ کر لیتی تھی مگر طارق کی توجہ پہ نہیں ۔۔۔
اس نے طارق کو مجھ پہ توجہ دینے سے گریز پر ہی مائل و مجبور رکھا شائید / یقینا)
کہ میں توجہ دوں گی خیال رکھوں مگر تم مجھ سے نظر نہ ہٹانا
میں ناگن ناگن ۔۔ ۔۔ ہاہاہا
نگینہ کی سری دیوی لگتی کبھی کبھار مجھے ۔۔۔ ایک بار تنگ آکر میں نے طارق سے کہا
رضیہ کو ‘انکا ‘ کی طرح سر پہ سوار کر رکھا ہے
اس نے کہا
ہاں وہ میری انکا ہی ہے
میں نے کہا
مجھے پھر اقابلا سمجھ لو ۔۔۔
مگر انکا نے ہمیشہ اقابلا کو نو لفٹ کرائی رکھا جیسے اس نے اقابلا پڑھی ہی نہ ہو ۔۔۔ بس انکا ہی تھی سب رنگ ڈائجسٹ میں ۔۔۔ہاہاہا
ایک بار نور الہدی شاہ صاحبہ آئیں انہیں کوئی چیز طارق ڈھونڈ کے دکھا رہا تھا ۔۔۔الماری کھلی جیسے سیٹنگ کا فنی شہکار کھل گیا۔۔۔ ٹائیاں الگ پینٹس الگ شرٹس الگ انڈر وئیر بنیانوں کی الگ سیٹنگز ساکس الگ چھوٹے چھوٹے ہینگرز میں شلوار قمیض الگ اکڑے استری ،شدہ ٹوپی اجرک الگ، سب نگینے کی طرح اپنی اپنی جگہ فٹ اور سیٹ میں خود کبھی کبھار کھول کر حیران ہو جاتی کہ رکھتی کس طرح ہے۔۔۔ ایک بار صرف ایک بار مجھے ایک سوٹ پکڑایا کہ واپس رکھ دو الماری میں دوسرا پہنوں گا ۔۔۔ میں نے رکھ دیا بغیر سیٹنگ کے ایک ہی ہینگر پر دونوں چیزیں شکن دار الٹا سیدھا لٹکا کر ۔۔۔ وہ شائید میرے چیکنگ مشن پر تھا ۔۔۔ آفس سے واپس آتے ہی الماری کھولی وہی ہینگر نکالا پینٹ کا ایک پائنچہ شمال میں ایک مغربی شمال میں شرٹ کا بازو مغربی اور مشرقی دونوں سمتوں سے ترچھا اور اونچا نیچا ۔۔۔ اللہ جانتا ہے میں نے پوری توجہ اور کوشش سے ہینگ کئے تھے ۔۔۔ مگر میری مجبوری یہ تھی کہ کبھی مردانہ کپڑے سنبھالے نہ تھے ساری زندگی ہاسٹلوں میں گزری تھی باپ بھائیوں کے کپڑے کبھی رومال تک نہ دھویا نہ سنگوایا ۔۔۔
کیسی عورت ہو کپڑے تک ہینگر پہ نہیں لٹکا سکتیں ۔۔
یہ کیا ہے اس نے شرٹ اور پینٹ کو مزید ٹیڑھا کر کے مجھے گھور کے دکھایا ۔۔
تمہیں تو پھانسی پہ لٹکانا بھی آتا ہے “
میرا بھی برجستہ جواب نکل گیا
مجھے پتہ تھا اسے ہنسی آگئی ہے مگر اس نے چپ رہنے پہ اکتفا کیا ۔۔
اسے پتہ تھا اس نے پھانسی پہ لٹکا رکھا ہے سیدھا سیدھا
ایک بار پوچھا
محبت کے بارے میں اب کیا خیال ہے تمہارا ؟
میرے انداز میں زہر بھری تلخی گھل آئی
میرا بس چلے تو محبت کو سولی پہ لٹکا دوں “
میں نے بے ساختہ ریلنگ پہ لٹکے پردوں کی طرف سولی کا اشارہ کیا
اس کے خوبصورت اور جگ مشہور قہقہے چھوٹ گئے ۔۔۔
اس نے اسی خیال پر ایک شعر بھی لکھ دیا تھا بعد میں کہیں
کچھ اسی طرح( یاد نہیں پورا )
میرا بس چلے تو سولی پہ لٹکا دوں محبت کو

شائید میں نے بھی ایک نظم لکھی ہے کہیں

کیسی عورت ہو ؟
کپڑے ہینگر پہ لٹکانا نہیں آتے تمہیں
اس نے مجھے ڈپٹا
ہاں مگر ۔۔۔
تمہیں تو سولی پہ لٹکانا بھی آتا ہے
میں نے سوچا )
کچھ اسی طرح تھی شائید
میں نے اسے مسکرا کے دکھایا ۔۔۔ اچھا بیٹے تو کرلے مجھے ڈانٹنے کا ارمان پورا ۔۔۔ وہ غصے کی کامیاب ایکٹنگ کرتے ہوئے کپڑے سیٹ کرکے ہینگ کرکے جھنجھلا کر چلا گیا باہر۔۔۔ میرا کیا قصور بیٹھ رہی چپ چاپ (مزے سے)
بہرحال ایک بات انتہائی قابل تعریف ہے
بدزبانی ، بدتمیزی ، بدتہذیبی یا ہاتھ اٹھانا نفرت کی حدتک معیوب سمجھتا تھا وہ ۔۔۔ مگر نظر اندازی اس کا ایسا کند اور تیز ہتھیار تھا کہ نہ مرو نہ جیو ۔۔۔ بس پڑی سڑتی رہو اور ہتھیار کے سارے داؤ پیچ وہ مجھ پر ہی آزمائی رکھتا کہ اس میں اسکی شہزادی انکا راضی رہتی ۔۔۔ اور میں اس کے لئے قابل قبول بھی ہو جاتی کہ جب سارا دن میں نے ان کا بھرت ناٹیم سا رومانس دیکھنا ہے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے محبت کے نرت اور داؤ پیچ دکھاتے ۔۔۔ اور سب تو ان کے ناز و انداز کو انجوائے کرتے تھے مگر بہرحال میں اس سیٹ پر نہیں تھی کہ انجوائے کر سکوں ہاں گھونٹ گھونٹ زہر کی تلخی میرے اندر ضرور اترتی رہتی تھی ۔۔۔
شوہر قابو کرنا اسے آتا تھا پرانی کھلاڑی تھی اس کی انتہائی مزاج آشنا مجھے پھنسانے والے کوئی داؤ پیچ نہ آتے تھے اور میں سادگی اور معصومیت کی نمائندہ رہی ۔۔۔۔ رومانس کی جھجک تو آخر تک قائم رھی میں یہ شعبہ اسی کے ذمے رکھتی ہنسی مذاق فقرے بازی کر لیتی کبھی کبھار مگر نہ میں کھلتی تھی نہ وہ ہیں ڈھنگ سے کھلا مجھ پر ۔۔۔ شائید کھل جاتی مگر مسلسل نظر اندازی اور بے توجہی میں اس کا خود سے ہاتھ پکڑتے بھی جھجکتی تھی کہ رضیہ نہ دیکھ لے بچے نہ دیکھ لیں وہ چھڑالے گا۔۔۔ اور اسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ وہ بھی کرتا سارا دن ۔۔۔
حالانکہ وہ دونوں کھلی ڈھلی محبت انگلش سٹائل میں اٹھتے بیٹھتے گلے میں باہیں چھیڑ چھاڑ اور اسٹائل سے بچوں کے سامنے بھی نہ کتراتے ۔۔ کھی کھی کھی ۔۔۔۔ لاھوت بھی ہنستا مجھے دیکھتا میں بھی اس کی ہنسی کو انجوائے کر کے ہنس دیتی
میرے پاس کچھ نہ تھا سوائے چپ رہنے کے اور ان دونوں کے مطابق رہنے کے یہی میرا مدافعتی اور مزاحمتی ہتھیار تھا
اندر ہر وقت دل میں ٹوٹ پھوٹ جاری رہتی ۔۔۔ رونے کی عادت نہیں تھی ورنہ بندو بست ہر وقت رہتا ۔۔۔
بہرحال جب اس روز الماری کھلی
میرے سگھڑاپے اور سلیقے کی تحسین و داد آپا نور الہدی شاہ کی آنکھوں میں نظر آئی ۔۔۔
الماری تو بہت سیٹ ہے “
انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا
میں نے میسنی ایکٹنگ کرکے شکریہ بھری نظروں سے سرجھکالیا
دل میں ہنسی بھی آئی اور دل ہی دل میں رضیہ کو خراج تحسین بھی پیش کیا ۔۔۔ کہ بہن آج تو نے میری عزت رکھ لی اگر یہ الماری اور سیٹنگ میرے ہاتھ میں ہوتی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ ہوتی ۔۔۔ اور کیا سوچتیں آپا کہ آخر دیکھا کیا ہے اس پھوہڑ میں طارق نے ۔۔۔ہاہاہا
یہ طارق کا اور میرا معاملہ تھا میں جانوں وہ جانے کہ کس نے کس میں کیا دیکھا۔۔۔ہاہاہ

https://raiseyourdimensions.com/category/entertainverse/verse/azra-mughal

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپ رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے