میں نے شاعری کو کیوں چنا ؟

میں نے شاعری کو کیوں چنا ؟
جبکه مجھے ڈھنگ سے شعر کهنا بھی نهیں آتا
دراصل کم عمری سے هی میرے ذهن میں ڈائیلاگ قسم کی سوچیں مٹر گشت کرتی رهتی تھیں جن میں دخل پاکستانی فلموں کی ڈائیلاگ بازی کا تھا یا اشفاق احمد صاحب کے ڈراموں کا که ان سے کم میں نے کسی پر سمجھوته نهیں کیا ، بهرحال خود کلامی کی سی صورتحال رهتی اگرچه میں حلقه ء دوستاں میں کچھ کم گو گردانی جاتی تھی اور یوں بھی بهت زیاده باتون لوگوں سے کبھی میری گاڑھی نهیں چھنی بلکه بیزاری کا احساس بهت جلد حاوی هوجاتا هے ، بهرحال همیشه هی میری دوست معقول طرز گفتگو کی حامل رهی هیں اور میں عموما ان میں سب سے کم گو…..مگر ذهن تانے بانے میں مصروف رهتا تھا کتنی هی شاهکار تخلیقات میرے ذهن میں آکر نکل چکی هیں( میرے خیال خام کے مطابق ) بهر حال آج سے کوئی پچیس تیس سال پرانی بات هے که میں بےچینی سے کاغذ قلم ڈھونڈ رهی تھی کچھ لکھنے کے لئے ، دانت آمد کے اثر سے بھنچ گئے تھے لهو میں کچھ لفظ ناچ رهے تھے عجبب ےقرار سی کیفیت تھی بس یه تھا که لکھوں اور چھٹکارا پاؤں اس تخلیقی اضطراب سے ، چند لائنیں صفحے پر اتار دیں ، روح میں شبنم کی ٹھنڈک اتر آئی بےچینی سکون میں بدل گئی، اچھا یه آمد تھی چھوٹی سی نظم دیکھ کر سوچا ….. پھر تو گاهے بگاهے ان کیفیات کا نزول هونے لگا… پیٹ میں مروڑ هے تو هوتا رهے پهلے آمد کا اخراج هوگا تو پیٹ کے مروڑ کو سمجھیں گے باتھ روم جاتے جاتے کاغذ قلم تھام لیا ها ها ها….. کالج کے لئے تیار ایک ایک منٹ لیٹ کررها هے ، اور کم بخت کسی خیال کا نزول هوگیا کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئی جب تک ذهن سے اتر کر کاغذ په نه آیا رگ رگ میں اضطراب چٹخ رها هے کاغذ په اترتے هی رگ و پے میں سکون اتر آیا…. “خیال خام” ساری کی ساری ان کیفیات اور “آمدات” کا سلسله هے اب کچھ مشاق هوگئی هوں آمد بھی سنبھال لیتی هوں آورد بھی اور درآمد برآمد بھی ، جو بھی من میں آتا هے اتار دیتی هوں جیسے کا تیسا جوں کا توں ، شعر لگے نه لگے نثر بنے نه بنے ، بس خیالات کا اظهار چاهئے

نوعمری میں کبھی کبھار شوق تقاضا کرتا کہ شعر و شاعری کی جائے مجال ہے کوئی ایک شعر بھی بن کر دیتا ہو (آج تک یہی حال ہے… ہاہاہا) بہرحال 9th کلاس میں مقابلہ ء بیت بازی جو کلاس کے ہی دائیں بائیں بیٹھے اسٹوڈنٹس کے درمیان ہوتا تھا ایک شعر بنانے کی ضرورت آن پڑی
حاشیہ کھینچ کر تو نے زندگانی کا
ایک انساں کو قید کر دیا

یہ زندگانی کا پہلا شعر نما فلاسفیکل ڈرامہ تھا جو شہر لاڑکانہ کے اکثر بیت بازی کے مقابلوں میں نوآموز بیت بازوں کے بیچ دہرایا جانے لگا جب بھی ح کا حلوہ بنانے کی نوبت آئی….. کالج میں اینٹری ہوتے ہی پھر شعر کا شوق چر آیا لڑکی نے ‘ لڑکی’ تخلص پسند فرمایا اور ایک غزل نما چیز لکھ کر آخری شعر میں زبردستی لڑکی گھسا کر مقطع بنانے کی سعی کی گئ ایک دو شعر نما یاد ہیں نمونہ ء کلام ملاحظہ ہو مقطع بالکل فراموش ہوچکا ہے کہ اب نہ وہ لڑکی رہی نہ وہ شعر

درد کچھ اور سوا ہوتا ہے
ذکر جب کبھی آپکا ہوتا ہے

انکی آنکھیں کبھی جلتی پاکر
شب بھر رت جگا ہوتا ہے

اگلےدوتین شعر بالکل ذہن سے نکل گئے ہیں بس اتنا یاد ہے کہ وہ واقعی بہت گئے گزرے تھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More