یونیورسٹی

University

یونیورسٹی میں سات آٹھ فرینڈز کا ٹولہ تھا جن کے ڈیپارٹمنٹس ایک نہ ہوتے ہوئے بھی ہاسٹل فرینڈز شپ تھی کوئی انگلش کوئی فارمیسی زیادہ تعداد ذولوجی کی تھی کہ ذولوجی کی میری چار پانچ کلاس فیلوز بمعہ مزید ہم خیال لڑکیاں فرینڈز بن چکے تھے دن بھر کی گونا گوں پڑھائی نیند کی مصروفیات کے بعد رات میس میں ڈنر کے بعد سب کے آٹو میٹک قدم اپنے کمروں کی بجائے روم نمبر 104 کی طرف بڑھ جاتے محفل یاراں کمرہ نمبر 104 میں جمتی ۔۔۔ میزبان میں اور گل افروز ہوتے چائے گل افروز بناتی چائے کے برتن میں دھوتی حسب آرزو ناچنا گانا ہنسنا ہنسانا گپیں لگانا سب کا کام ہوتا سب پتلی پتنگ سی لڑکیاں دو لوہے کی نوار والی چارپائیوں پر فٹ ہوجاتیں فالتو دو کرسیوں پر براجمان ہوجاتیں اب بھی کوئی بچتی تو کھلی کھڑکی کے چھجے پر منہ اندر کی طرف کرکے بیٹھ جاتی ۔۔۔ اور قہقہوں کی برسات میں اپنے قہقہے شامل کرتی رہتی واپسی کے بعد آخری پانچ چھ پنچھی دوسری منزل کی کھڑکی سے باہر نکل کر ڈیڑھ فٹ چوڑے ساڑھے تین فٹ لمبے چھجے پر رات کے اندھیرے میں اونچے مقام پر بیٹھ جاتیں ہائی وے پر آتی جاتی گاڑیاں دیکھتیں اور کورس میں گاتیں بہت کچھ انڈین پاکستانی اور خاص طور پر ۔۔۔۔ ایک سب کا ارمانی گیت
“آجا سجن مدھر چاندنی میں ہم تم ملیں تو آجائے گی بہار”
ہماچل پردیش کے نقوش ونگار اور عجیب سی گلابی رنگت والا چوکیدار سیٹیاں بجاتا ڈپٹنے پہنچ جاتا ۔۔۔
“مت گاو ۔۔۔ لڑکے آجائیں گے دیوار کود کر “
وہ ہائی وے کے سامنے ہمارے کمرے اور ہاسٹل کی پچھلی چار دیواری کی طرف اشارہ کرتا
ہم اسے باتوں میں لگاتے وہ باتوں میں آجاتا ۔۔۔ لگتا لڑکوں سے زیادہ تو یہ ارمانوں بھرا ہے پھر اسے ہوش آجاتا کہ میں چوکیدار ہوں سیٹی بجاتا ڈپٹتا اور جلدی اندر جاو میں پھر آتا ہوں ۔۔۔ واپس ہوجاتا ہم پیچھے سے اور اونچا اونچا گاتیں
“نہ جا رے نہ جا میرا پیار پکارے”
ایک پیار ہوتا تو بندہ سمجھے بھی پانچ چھ ‘پیاروں’ سے کون الجھے
اب سوچوں تو پندرہ بیس فٹ اونچے کھڑکی کے چھوٹے سے چھجے پر پانچ چھ لڑکیوں کا بیٹھنا رسکی ہی تھا ۔۔۔مگر ہم ایکسپرٹ کھلاڑی تھیں بلکہ میں تو سردیوں میں نہا دھوکر وہاں بیٹھ کر دھوپ بھی سیکا کرتی تھی اور ہاتھ پیروں پہ لوشن اور زلفیں بھی سلجھایا کرتی تھی ۔۔۔ ہائی وی کی رواں ٹریفک کی وجہ سے وہ میری پسندیدہ جگہ تھی یہ منظر میرا اتنا پسندیدہ تھا کہ رات گئے جب آنکھ کھلتی میں سامنے دیوار پر پڑتے روشنیوں کے چلتے عکس دیکھتی اور گنتی تھی ۔۔۔۔ ہیڈ لائیٹ کی تیز روشنی لمبا اندھیرا سایہ ۔۔۔ این ایل سی کا ٹرک گزرا ہے۔۔۔ ذرا ہلکی روشنی فراٹے بھرتے سائے کا عکس کار ہے جب تک نیند آئے میں بھیڑوں یا ستاروں کی بجائے ہائی وے کی گاڑیاں گنتی تھی وہ بھی اپنے بیڈ کے سامنے والی دیوار پر ۔۔۔ اور دن میں تو یہ مشغلہ اسی طرح تھا جیسے بچپن میں ریل میں بیٹھے پٹڑیوں کے ساتھ لگے بجلی کے کھمبے گننا لطف دیتا تھا ۔۔۔ناسٹیلجک !
بیلا کراچی سے تھی تہذیب و اخلاق میں اعلی درجے کی حامل نازک و نفیس سی ۔۔۔ نہ جانے کیوں اس کی روم میٹ کبھی کبھار ہاسٹل آتی پورا کمرہ اس کے حوالے تو رہتا مگر اس نے ڈھونڈ کر دوستی ہم سے کرلی ۔۔۔ عجیب ہی انداز تھا ویسے اس کا بھی
شادی کرکے لاہور آگئی تھی لاہور گھومنے کا بڑا شوق تھا ایک بار ہماری فیملی کے ساتھ یونیورسٹی دور میں گھومنے آئی بھی تھی ۔۔۔ اتنا پسند آیا لاہور کہ گھر والوں سے کہہ دیا
“میں لاہور کے کسی بندے سے ہی شادی کروں گی”
لہورئیے کے نصیب جاگے ۔۔نہ جانے کہاں سے کس کی وساطت سے ایک لہوری انجینئر مل گیا
یونیورسٹی کے بعد ہم سب کچھ دیر ان ٹچ رہے پھر سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوگئے بالآخر سب ڈار سے بچھڑی کونجیں بن گئیں ۔۔۔۔ کتنے ہی سالوں بعد ایک فون آیا شائید لاڑکانہ کے نمبر پہ اس نے کیا تھا انہوں نے لاہور شفٹ ہونے کا بتایا پھر ان کی وساطت سے ماموں والوں سے نمبر لیا ۔۔۔ بہرحال بیچ کی تفصیلات مجھے بھول گئی ہیں لاہور کے نمبر پہ ایک ایکسائیٹڈ آواز مجھ سے ہم کلام تھی
” پہچانا مجھے”
لہجہ ہنسی کچھ کھنک رہی تھی مگر پہچان نہ پارہی تھی
“یار ۔۔ بیلا (شہلا ) ہوں ” شہلا سے بیلا نام اسکا ہم نے ہی رکھا تھا
“کہاں سے ۔۔۔ کراچی سے”
“نہیں لاہور سے”
لاہور میں رہتی ہوں شادی بچوں سب کا بتایا
“تم بتاو شادی ہوئی کب ہوئی کس سے ہوئی ۔۔۔”
بیلا نے یونیورسٹی دنوں میں ایک میک اپ کٹ خرید رکھی تھی وہ سب کو اپنی ماڈل بناکر میک اپ کے تجربات کرتی رہتی ۔۔۔ سب سے زیادہ وقتا فوقتا اس کے آرٹ کا نشانہ میں بنتی وہ اکثر بھری دوپہر میں آجاتی کٹ پکڑے آہستگی سے دروازہ کھولتی اگر میری نیند سے آنکھ کھل جاتی تو وہ کٹ دکھا کر اشارہ کرتی ۔۔اور اگر نہ کھلتی تو وہ انتہائی بے آواز بہت تہذیب سے دروازہ بند کرجاتی اکثر دروازہ بند کرتے سمے میں دیکھتی وہ کٹ سمیت واپس جارہی ہے اسے جیسے میک اپ آرٹ کا جنون سا ہوگیا تھا تو اکثر وہ کسی نہ کسی کے چہرے پہ اپنا آرٹ دکھا رہی ہوتی
میرا چہرہ اس کا پسندیدہ ہو چکا تھا کہ میں وقت بہ وقت میک اپ کے بعد منہ دھونے کی مشقت جھیل لیتی تھی
جب بھی تیار کرتی ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں بہت اچھا میک اپ کرتی آخر میں آئینہ دکھاتی
ڈھیروں تعریفیں کرکے
“سب رنگ والی لڑکی لگ رہی ہو”
میں بھی حیران ہوجاتی یہ میں ہوں
“بہت پیاری دلہن بنو گی۔۔۔ میک اپ مجھ سے کروانا”
میری کاجل آئی شیڈوز سے سجی آنکھیں اور خوابناک ہوجاتیں لپسٹک سے سجی مسکراہٹ آئینے میں بھی قاتلانہ سی جھلکنے لگتی ۔۔۔واقعی مجھے لگتا میں سب رنگ والی لڑکی جیسی دکھ رہی ہوں ۔۔۔
چلیں یہ تو جوانی کے دکھڑے تھے اور سب سے بڑا دکھ یہ کہ شادی عین عالم شباب میں نہ ہوئی ۔۔۔ بہرحال شہلا نے شادی کا پوچھا تو سب یاد آگیا
دل سے ایک آہ سی نکلنا چاہی مگر دبا لی
سنجیدگی اور متانت سے جواب دیا
“شہلا شادی بھی ہوگئی ۔۔۔ شوہر کا انتقال بھی ہوگیا ہے”
میری توقع تھی شہلا صدمے میں غرق ہوجائے گی مگر وہ خوشی میں غلطاں و پیچاں ہوگئی
“یار تم ہمیشہ سے خو ش قسمت ہو ۔۔۔ کتنی جلدی جان چھوٹ گئی تمہاری “
میرا قہقہہ بھی فل والیوم سے چھوٹا ۔۔۔ کچھ دیر تبادلہ ء ہنسی و قہقہہ جات ہوتے رہے
میں اس کا جملہ دہرا دہرا کر انجوائے کرتی رہی ۔۔۔مگر اس جملے کے پیچھے اس کی کربناک شادی کی حقیقت ضرور تھی
ایک بار ملاقات ہوئی پھر ۔۔۔ بظاہر علیحدگی نما زندگی تھی اس کی کراچی واپس جانا چاہ رہی تھی ہارٹ پیشنٹ ہوگئی تھی پتہ نہیں اب کیسی ہوگی پھر گم شدہ ہے۔۔۔ سالوں سے نہ جانے کہاں ہوگی اب ۔۔ میرے پاس کوئی اتا پتا فون نمبر نہیں الہی جہاں ہو خیر سے ہو آمین ثم آمین

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More