کچا کھوہ

village

ہمارے گھر گرداسپوری وٹالے دی پنجابی بولی جاتی کیونکہ گھر میں عورت راج تھا امی جی کا تعلق ان دونوں شہروں کے بیچ غالبا ٹرائینگل کی چوٹی بناتے کاہنوں واہن کے گاوں حویلی سے تھا ۔۔۔ ابو جی ہمیشہ کے کم گو کسی سے اپنا ماضی شیئر نہ کرنے والے ایک ایسا کردار جو ہمارے ابو جی تھے ۔۔۔ بس ان کا یہی تعارف تھا نہ آگے نہ پیچھے کوئی ہمیں نہیں پتہ وہ کون تھے کہاں سے تھے کیا تھے بس اپنے بچوں پہ فدا جان وارتے پیارے سے ابو جی تھے ان کا ہمارے علاوہ جیسے کہیں پہ کچھ بھی کوئی بھی نہ تھا ہم ان کی کل کائنات تھے وہ ہمارا سارا جہان۔۔۔ امی جی سے ہی سنا تھا ان کا تعلق فیروز پور سے تھا پھر فاضل دے بنگلے کا ذکر کبھی کبھار ۔۔۔ دادا دادی کا نام سنا تھا کہ ہر سال ان کے نام کی قربانی ہوتی مگر وہ انڈیا میں ہی ابو جی کے بچپن میں وفات پاچکے تھے جب ان کی عمر پانچ چھ سال کی تھی ۔۔۔ ابو جی کبھی کبھار دادی کی وفات کا واقعہ سناتے اور آزردہ ہوجاتے انہیں ماں کا چہرہ کچھ کچھ یاد تھا سب سے چھوٹے کیوٹ سے عمران کو کہتے
” یہ دادی جیسا ہے “
بہرحال پنجابی تو گھر میں سب بولتے تھے مگر ابو جی کی فیروز پوری اور ہماری ننھیالی گرداسپوری پنجابی کے لہجوں میں فرق بہت واضح تھا ہم ان کی پنجابی غلط سمجھتے اور ان پر امی کے ساتھ مل کر ہنستے ۔۔۔ شائید وہ کم گو بھی یوں ہی ہو گئے ہوں ہائے میرے ابو ۔۔۔ بہت ہی پیارے ابو تھے اللہ مغفرت فرمائے ان کی اور جنت الفردوس میں جگہ دے آمین ثم آمین
ان پہ تو ایک زمانہ فریفتہ تھا وہ تھے ہی اتنی اچھی عادات و خصائل کے حامل جو ان سے ایک بار ملتا ان کے گن ساری زندگی گاتا ۔۔۔ ان کی شخصیت میں کم گوئی کے باوجود اللہ تعالی نے ایک عجیب سحر اور کشش سی رکھی تھی کہ جو ان سے ملے ان کا ہوجائے بہت کم چنیدہ اور نایاب ہوتے ہیں ایسے لوگ یقینا ۔۔۔ہم سب بہن بھائی ان پہ دل و جان سے عاشق اور فدا تھے گھر میں سارا دن ابوجی ابوجی کا طوطی بولتا ہم نیند میں بھی امی کی بجائے انہیں پکارتے
“ابو جی ۔۔۔پانی “
“ابو جی ۔۔ سردی لگ رئی اے “
وہ ساری رات بچوں کو چیک کرتے رہتے کس نے کمبل ہٹا دیا ہے کس نے زمین پر گرا دیا ہے کون پاسا پلٹتے ہوئے گر جائے گا دن رات ان کی توجہ کا محور ان کے بچے ہی رہتے باپ کی محبت کے علاوہ ان کے اندر ایک ماں کی روح بھی تھی
میں ان کی سب سے زیادہ لاڈلی تھی پھر عمران کے بعد دوسرا نمبر ہوگیا میرا
ہم ان کی پنجابی پہ ہنستے تھے غالبا ان کا لہجہ جھنگ خانیوال سے ملتا جلتا تھا
پاکستان میں کچا کھوہ نامی کسی جگہ کا ذکر کیا آخری عمر میں ۔۔۔ اب لگا کہ یہ وہاں جانے کی آرزو رکھتے ہیں کہ ان کے بھائی بھتیجے جنہیں وہ زندگی بھر چھوڑکے پردیس میں بس رہے وہیں کہیں رہتے تھے کچھ بھولی ادھوری یادداشتیں تھیں جنہیں اب وہ اسی پچاسی کے ہونے کے بعد مجھ سے ٹوٹی پھوٹی شیئر کرنے لگے تھے صحیح طرح انہیں بھی کچھ یاد نہیں رہا تھا ۔۔۔ ان کے ادھر سے ادھر بکھرے جملوں کا ربط میں خود ہی بناتی ان سے پوچھتی ۔۔
‘ہاں ۔۔۔ہاں ۔۔ہاں ‘ وہ تائیدی سر ہلادیتے
بہرحال میں نے ان سے وعدہ کیا میں اور آپ چلیں گے انہیں ڈھونڈیں گے اور ایک بار ضرور ملیں گے ۔۔۔ کوئی نہ کوئی تو ضرور ہوگا ان کی اولاد میں سے ہی سہی ۔۔۔ دو بھائی تھے ان کے شائید ایک چھوٹا ایک بڑے اور ان کی اولادیں ماں باپ کی وفات کے بعد یہ تینوں بھائی الگ الگ رشتے داروں نے پالے تھے ابو جی کو ان کے ماموں مامی نے ۔۔۔ ان کی یاد داشت اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ وہ سب کے نام بھی گڈ مڈ کر رہے تھے خود ہی الجھا رہے تھے ہمیشہ کی طرح بتانا نہیں چاہے تھے یا واقعی یاد داشت جواب دے گئی تھی میں کچھ نہیں کہہ سکتی بقول امی کے “اے کسے نوں اپنا راز نئیں دیندا”
ہم نے پکا ارادہ کر لیا ہم خانیوال کی طرف کچا کھوہ تک جائیں گے وہاں لوگوں سےاتے پتے کریں گے گرمی کی چھٹیاں تھیں ہم نے طے کیا سردیوں میں چلیں گے کہ وہ گرمی کے سخت موسم کا سفر اور پھر ڈھونڈنا وغیرہ چوراسی پچاسی کی عمر میں کیسے کریں گے ۔۔۔۔سردیاں آئیں تو وہ خود چلے گئے رب کے پاس دل میں ایک خلش سی چھوڑگئے ۔۔۔
زیادہ دور تک چل پھر نہیں سکتے تھے باہر نکلنے کو ترستے تھے مجھے چند دنوں سے روز کہتے
“ٹھوکر( قریبی بازار ) لے چلو ۔۔۔ میں چپل لینی اے “
میں خود کبھی نہ گئی تھی بھابی سے کہا “ٹھوکر جانے کا کہہ رہے ہیں کتنے دنوں سے”
“کل لے جاوں گی ۔۔۔ “اس نے ان سے پکا وعدہ کیا
“چلیں ٹھوکر ۔۔۔”
انہوں نے نفی میں سر ہلادیا کہ تیز بخار تھا
ٹھوکر جہاں وہ اکثر چھوٹی موٹی خریداری کرنے جایا کرتے خریداری کیا کرتےاکثر ایزی چپل خریدتے کوئی کاندھے پہ رکھنے والا پرنا ٹائیپ کپڑا یا رومال اور اکا دکا چھوٹی موٹی کچھ ضروری چیزیں ۔۔۔ جو بھی ایزی چپل لاتے گھر لاکر اسے ادھر ادھر سے کاٹ کر اور ایزی بنانے کی کوشش کرتے ہر نئی چپل وہ کاٹ کر پہنتے ۔۔۔پھر مہینے دو مہینے بعد نئی ایزی چپل لاکر بلیڈ یا قینچی سے کاٹ کر اپنی مرضی کے مطابق کر رہے ہوتے امی جی بولتیں بھی یہ کیا پھر کاٹ رہے ہو نئی چپل
‘ایتھوں چبھدی پئی سی ‘ وہ کسی اینگل سے دکھاتے مگر پھر کاٹ کر کنارے اور زیادہ چھوٹے سے کر لیتے ۔۔۔ ان کی مرضی کی ایزی چپل مارکیٹ میں بن ہی نہ رہی تھی شوز لاتے کاٹ کر ایزی چپل بنا لیتے ۔۔۔ امی کہتیں
” موچی تے نئیں سی پچھوں “
“جو مرضی بنا لا ۔۔۔ تینوں کی پتہ میں کون آں ” وہ چپل کاٹتے ہوئے اپنے آپ کو جواب دیتے
میرا وعدہ پورا نہ ہوسکا ۔۔۔ میں انہیں نہ ٹھوکر لے جا سکی نہ کچا کھوہ ۔۔۔ جس کا دکھ مجھے زندگی بھر رہے گا دعا کرتی ہوں اور آرزو ہے یہی کہ
یا اللہ وہ جنت میں اپنے ان پیاروں کے ساتھ ہوں جن سے وہ آخری عمر میں ملنا چاہتے تھے (آمین ثم آمین )
کبھی کبھی سوچتی ہوں میں خود ان کی بتائی ہوئی کچی پکی نشانیوں پہ تلاش کروں ۔۔۔مگر پھر سوچتی ہوں کیا فائدہ جو ان کے اپنےتھے وہ تو رہے نہیں اب مل کے کیا کسی سے دکھ تازہ کرنا ۔۔۔ بات کچھ اور ہی شروع کی تھی مگر نکل کسی اور طرف گئی کوئی ہنسنے کی خوشگوار بات تھی جو کرنا چاہتی تھی مگر ابو جی کے ذکر پر چلتی چلتی اداسی کی طرف نکل گئی اللہ کریم امی ابو اکرم ماما مامی اور ہمارے سب پیارے جو گزر گئے ہیں ان کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں انہیں اکٹھا رکھے آمین ثم آمین کبھی نہ کبھی تو ہم بھی ان سے جا ملیں گے یہ تصور ہی خوشی دیتا ہے ۔۔۔ اللہ تو آسانیاں کر سب کے لئے آمین

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
A man walking on sea
Read More

گپ شپ

عذرا مغل ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں…
Read More