یادش بخیر 1

Front view of a smiling woman

شبانہ جب میری شاعری یا نظمیں پڑھتی ہے تو۔۔۔
“اف ۔۔۔توبہ ۔۔توبہ اتنا بڑا ڈرامہ “
(اداس ہیروئین بننے کا )
اور جب نثر پڑھتی ہے تو جل جل کے کہتی ہے
“اتنی شرارتی تو نہیں تھیں آپ ۔۔۔ہم نے تو ہمیشہ سنجیدہ ہی دیکھا ہے ۔۔۔ جھوٹ کیوں لکھتی ہیں کہ میں بہت ہنستی ہنساتی تھی ۔۔۔مسکراتے دیکھا ہے کھل کے ہنستے بھی کم ہی دیکھا ہے “
پر جب میرے زور زور سے قہقہے چھوٹتے ہیں تو اسے میری دل سے ہنسی پہ اعتبار آجاتا ہے
ہنسی کی بھی خوب کہی۔۔۔
لاڑکانہ میں بےبی میں اور ہماری خاصی چھوٹی بہن سی پڑوس کی دوست خاصی سمجھدار اور میچور بھی اکثر ہنسی کے فوارے اچھالتی رہتیں ۔۔۔ بےبی اور امینہ کی ہنسی سٹاپ نہیں ہو پارہی کسی بات پر ۔۔۔ میں اپنی گود میں ہی بے آواز لوٹ پوٹ ۔۔۔امینہ پریشان ہوگئی جب ان کی ہنسی رکنے کے بعد بھی سر نہ اٹھا
“اڑی ۔۔۔ ڈس تہ ڈس تہ باجی کھی چھا تھیو آ “
وہ سمجھی مجھے ہنستے ہنستے اعصابی کمزوری سے غش تو نہیں آگیا اچانک موٹی تازی کو ۔۔۔
بے بی نے اطمینان سے کہا
“ہل رہی ہے ۔۔۔منہ اٹھا کے دیکھو ہنس رہی ہوگی “
میرا منہ اٹھایا گیا ۔۔میرے وکھیاں چہرہ ناک منہ انکھ کان سب بے آواز ہنسی کا شہکار بنے ہوئے تھے۔۔۔
پھر اکثر وہ خود ہنس ہنسا کے میری بے آواز ہنسی کو میری ہی گود میں ابلتا ، ہلتا پڑے دیکھ کر خوب ہنسا کرتی تھیں
امینہ اور بے بی کا لوڈو کے حوالے سے بڑا ٹاکرا رہتا ۔۔۔ امینہ پکی پکروڑ بے بی خود بھولے سے گوٹیاں اس کے راستے میں آتے جاتے پٹوا کر روہانسی اور چڑچڑا جاتی کچھ لڑاکی بھی ہوجاتیں دونوں ۔۔۔ سارا دن ان کا یہی رولا رہتا لوڈو کھیلتے ۔۔۔ لوڈو کبھی آدھے میں اوندھی کبھی چڑ چڑائی لڑائی ۔۔۔ یاد ہے لوڈو کھیلتے سمےامی جی تک پوتے پوتیوں سے تو تو میں میں کر لیتی تھیں کہ یہ بھول کر کہ کھیل ہے اور ۔۔۔ اور اور ہماری لائبہ تو جب پہلی بار کھیلی تب اسے کھیلنا نہیں آتا تھا پہلی گوٹی پٹنے پر دھاڑیں مار مار کر منہ پھاڑ پھاڑ کر اتنا روئی اتنا روئی کہ سارے گھر کو وختا ڈال دیا کہ بے ہوش ہونے والی ہی ہوگئی ۔۔ سب لوڈو چھوڑ چھاڑ کر اسے سنبھالنے منانے شربت پانی پلانے لگے کہ رو رو کر بے مت ماردی سب کی
میری گوٹی ماری کیوں ؟
آخر میری گوٹی ماری کیوں ؟
اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے پستول سے اس کی گوٹی پہ فائیر کردیا ہو
بہت دیر لگی راضی کرنے میں۔۔
کھلاو تو مصیبت نہ کھلاو مصیبت گوٹی ماردو تو قیامت صغرا ۔۔۔ کھیلنا آتا نہیں اس کی گوٹیاں بھی چلاو۔۔ اپنی گوٹیوں سے بچاو بھی اور اپنی گوٹیاں خوامخواہ اس سے مرواو بھی جہاں اس کی مر رہی ہو اپنی مار کے خانے میں ڈال لو یا اوپر سے گن کر شرافت سے گزر جاو ۔۔۔ ایک ڈیڑھ سال اس نے گھر میں سب کا لوڈو کھیلنا حرام کئے رکھا ۔۔۔ لوڈو بچھتی شوقین دادی کی ایک دو کھلاڑی اور میدان میں لائبہ بھی چوتھے خانے کے سامنے براجمان۔۔۔ نہ ہو تو پٹکا ڈال دے گی کیا کھیلنا اور کھلانا اسے بہلانا ۔۔بلیک میلنگ گیم بڑی سادگی سے آن ہوجاتی ۔۔۔ سب کھیلتے اس کی گوٹوں کے اوپر سے بنا مارے گزر جاتے آخر میں اسے جتوا کر پھر خود جیتتے یا ہارتے۔۔۔تسلی سے لوڈو کھیلی جاتی اور لائبہ مسکرا کر کوئین آف دا لوڈو پلے بن جاتی ۔۔۔
اسی طرح کی ہلکی پھلکی نوک جھونک بے بی اور امینہ کے درمیان بھی رہتی لوڈو کھیلتے سمے ۔۔۔ مجھے خوف ہوتا اچھی بھلی فرینڈز ہیں کہیں مائنڈ نہ کرجائیں ۔۔۔ میں لاڑکانہ جاتی تو نہ چاہنے کے باوجود تیسرا کھلاڑی مجھے بھی بنا لیا جاتا ۔۔۔ میری ان کو بنا توڑ کی ہیٹ ٹرک ان پہ آج بھی قرض ہے مطلب تین بار مسلسل جیت گئی تھی بغیر ان کا توڑ ہوئے ۔۔۔ بہرحال ایک دن بےبی امینہ مسلسل نوکا جھونکی کرتے لڑائی کے قریب تھیں کہ ہارنے والی بےبی نے لوڈو موہدھی مار دی
امینہ روہانسی ہوکر
“قسم ہے جو اب کبھی کھیلوں”
میں لوڈو سے بیزار ایسے ہی کسی لمحے کے انتظار میں تھی شائید
امینہ اللہ کی قسم کھاو
امینہ اللہ کی قسم کھالو
تمہارا قصور نہیں تھا ۔۔۔ نہ کھیلنا آئندہ بے بی سے
اللہ کی قسم کھالو
میرے اکسانے پر ناعاقبت اندیش امینہ نے فورا قسم کھالی
“مجھے قسم ہے اللہ کی جو تمہارے گھر لوڈو کھیلوں”
شکر الحمدللہ ۔۔۔ روز روز کی جھنجھٹ سے جان چھوٹی میری لوڈو میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر بلکہ اتنی گیمنگ سے بیزاری ہوتی تھی
قسم جو کھائی امینہ نے تو
دل سے نبھائی مومنہ نے
ہزار ترلے منتوں پر بھی پھر کبھی نہ کھیلی
تین سال بعد ۔۔۔ اس کی برتھ ڈے پر ہم تیار ہوکر جب پڑوس میں اس کے گھر گئیں خوب خاطر تواضع کے بعد۔۔۔ دیکھا تو سامنے لوڈو کھلی پڑی ہے
“اچو تہ ھانی لوڈو کھیڈئون”
امینہ تم نے اللہ کی قسم کھائی تھی ۔۔۔ توڑ رہی ہے کیا؟
میں نے حیرانی سے پوچھا
نہیں ۔۔۔ ہم بہنیں گھ

روز جو یہ چوتھائی کتاب میموریز آجاتی ہیں ان کا کیا کروں ؟ اب پانچ دن میں ایک کتاب کیسے چھپے ۔۔۔ہاہاہا
شبانہ بہت سی میری نئی تشکیل شدہ ویب سائٹ پہ ڈال دیتی ہے جہاں کوئی کم بخت ویو نہیں کرتا /کرتی
آپ لکھتے رہے آپ ہی ۔۔۔
وہ کیا شعر ہے غالب کا ؟ یاد نہیں آرہا
چلیں دوسرا لکھ دیتی ہو ں
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
گو اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
صحیح لکھا ہے نا
عرصہ ء دراز سے زیر مطالعہ کچھ بھی نہیں ۔۔۔
اب تو مارک زرق برق نے ہی جکڑ رکھا ہے ہر زن و مرد کو ۔۔۔ زوجہ و شو کو ، آپس سے چھڑا کر اپنے ساتھ ۔۔۔ہاہاہا
دوسرے آپ سب کو یقینا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ میری شاعری کی ساری اداسی ۔۔۔نثر میں آکر لامتناہی قہقہوں میں تبدیل ہوجاتی ہے فی الحال شاعری آرہی ہے میموریز میں تو اداسی سے گھبرانا نہیں کسی نے ۔۔۔۔ نثر کو آنے دو خود ہی ہنسی آجائے گی ۔۔۔ انجوائے ایوری موڈ آف یورز اینڈ مائن ۔۔۔ ہیپی ڈے

مارفیس ہمارے گھر کا بلا اگرچہ آوارہ گرد ہوگیا ہے ہوش سنبھالتے ہی ، جس کی اسے بچپن سے تمنا تھی مگر چونکہ وہ بوائلڈ چکن کھانے کا عادی ہے تو ۔۔۔ پیٹ پوجا کے لئے باہر سے گھوم پھر کے میلا کچیلا زخمی پٹ پٹا کے گھر آجاتا ہے کھانا کھانے۔۔۔ گھر کے سب بچے اس سے پیار کرتے ہیں آرام کی غرض سے وہ آج کل میرے کمرے کے باتھ روم کے باہر ٹھنڈی جگہ پر سوتا ہے
دو دن سے ٹانگ تڑوا کے بری طرح پٹا ہوا ہے تو مستقل گھر میں قیام ہے
گھر کا سب سے بڑا بچہ ماشا اللہ محمد انس عمران بلال (یہ چار نام ایک ہی بچے کے ہیں جو پہلا بچہ ہونے کے باعث باپ نے محبتا اور عقیدتا رکھے ہیں جن پہ صاحب نام سخت بیزاری شو کرتا ہے انا وڈا ناں میرا اسکول چ لکھا دتا ) آتا ہے اسے گھر میں دیکھ کر خوش ہوتا ہے
“اوئے ۔۔۔ کتھے رہنا ایں توں۔۔ نسلاں ودھان دے شوقین ، کٹاں کھا کے آجانا ایں”
مجھے اس کی بات پر ہنسی آجاتی ہے اوری میرا لاڈ اس کے لئے چھلک جاتا ہے
“توں وی نسلاں ودھا لا سوھنیا۔۔۔ توں وی ویاہ کرلا”
وہ ایک دم چونک گیا میری اینٹری پر
“مینوں کوئی شوق نہیں ” نیم ڈپٹتے ہوئے
“اوہدی اپنی پروگرامنگ اے میری اپنی پروگرامنگ اے ۔۔۔ میں پاگل نئیں نسلاں ودھا کے اپنے گل سیاپا پاواں ” وہ سوشل سائنٹست بایولوجیکل سائنٹسٹ جو وہ اکثر بنا رہتا ہے اپنے مخصوص نکتہ ء نظر سے پاکستان اور دنیا کی بڑھتی آبادی بڑھتے معاشی مسائل اور عدم تحفظ کے معروضی حالات میں ۔۔ جو اکثر وہ مجھ سے ڈسکس کر چکا ہے شادی کے مذاق و موضوع پر چڑ چڑ کر ۔۔۔
نوجوان پھر مجھے دو جملون میں چپ کرا گیا شادی کی بات پر ۔۔۔ کیا بنے گا ان جینیس نوجوانوں کا جو وقت سے پہلے شادی کے آفٹر ایفیکٹس سے بھاگ رہے ہیں اور رہی ان کی پروگرامنگ وہ بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی طرح ہیومن کی بجائے روبوٹک سی ہوگئی ہے کہ اور سب ٹھیک ہے شادی نہیں کرنی ۔۔۔ دیکھیں کب وہ انسانی نارمل طرز عمل کی طرف پلٹیں
فی الحال تو یہ نوجوان ۔۔۔ نوجوانی کے نام پہ بٹہ ہیں اتنا کول اور پریکٹیکل الاماں ۔۔۔ ہاہاہا
اور ایک طرف پچھلی جنریشن کی اکثریت ادھیڑ عمر بوڑھے نوجوان ٹھرک باز ہیں جو ابھی تک مر مر جا رہے ہیں ۔۔۔
یہ تو کھلا تضاد یے لوگو انسانی نفسیات کا ۔۔۔ ہے کہ نہیں !؟

ہم لاڑکانہ میں تھے
پنجاب سے مہمان ہمیشہ اچانک ہی آتے فون / موبائل کا جھنجٹ تو تھا نہیں ٹرین پکڑتے پندرہ بیس گھنٹوں میں سامان لادے پنہچ جاتے
اللہ بھلا کرے بی بی کا۔۔۔
کسی بھی تھکے ہارے سامان لادے بھوکے کمھلائے گھر آئے مہمان کو دہلیز ٹاپنے نہ دیتیں ۔۔۔۔
جب تک بیرونی دہلیز پر خوشی نیک شگونی کا خوش آمدیدی تیل نہ چو ء لیتیں ۔۔۔جب تک تیل ڈھونڈ کر لایا جاتا دہلیز کے اس پار کھڑے مہمان اور اس پار میزبان خوشی سے کھڑے ہنستے جگمگاتے ہی رہتے دہلیز کے دونوں کونوں میں تیل ڈال کر مہمانوں کی اینٹری ہوتی اور ہم بچے حیرانی سے ساری کاروائی دیکھتے پھر گھر میں ملنے ملانے کھانے پکانے اور ہنسی قہقہوں کی گہماگہمی شروع ہوجاتی گھر آئے مہمان گھر کے فرد ہی بن جاتے اور مہینہ دو یا اس سے بھی زیادہ لازمی ٹھہر کر جاتے اور زن و مرد جو جس ہنر میں مہارت رکھتا مہمانی بھول کے وہ سارے کام نمٹا کے جاتا ۔۔۔امی جی کی نابینا دادی آتیں تو اور کچھ نہیں تو پانچ چھ ماہ میں وہ انگلیوں کی پوروں پر مروڑی ‘پوٹیاں والی سیویاں ‘ کا کنستر ہی بھر دیتیں ۔۔۔ اب تو مہمانی میزبانی سب ایک وقت کے کھانے تک ہی محدود ہوگئی ہے گاڑیوں میں فراٹے بھرتے آئے فراٹے بھرتے گئے کسی کو چھٹی نہیں کسی کا یہ کام کسی کی وہ مصروفیت ۔۔۔ اور سچی بات ہے آرام کے اتنے عادی اور عادتوں کے اتنے غلام کہ اب آرام اپنے گھر میں ہی ملتا ہے کہیں چلے جاو تو ذہن پہ واپسی ہی سوار رہتی ہے

آج سب کو واٹس اپ پہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے خصوصی طور پہ یاد کر کے جمعہ مبارک بھجوایا پتہ چلا THURSDAY ہے
غائب دماغی تو پروفیسرز کا اتم سنستکار ہے ۔۔۔
یاد رہے ‘انتم ‘نہیں لکھا باقی درست لفظ یاد نہیں آرہا یہی ذہن میں ٹپکا ہے
‘ٹپکا آم ‘بھی یاد آگیا
ٹپکا آنسو
ٹپکی چھت
کوٹھے ٹپنی۔۔۔ ایک لفظ سے کیا کیا یاد آیا
جانو کپتی
منور ظریف
رنگیلا
کل ‘بے وفا ‘ فلم دیکھی شمیم آرا ء وحید مراد رنگیلا تمنا ریحانہ ۔۔۔
بے وفا ۔۔۔ ہاہ
دکھ
خوشی
بچے
کھانا
جمعے کو بریانی بنائی جائے
دیکھا کیسے جمعہ تا جمعہ ۔۔۔۔
لفظوں سے سلسلے جڑتے جڑتے خیال کی رو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں
میرا خیال ہے ایسا سب کے ساتھ ہی ہوتا ہے پروفیسری شرط نہیں
ہاں یہ ہے کہ بے دماغی کی بدنامی ان مقتدر اور معزز ہستیوں کے ساتھ لگی ہوئی ہے ہاہاہا

سچی بات کہوں تو جیولری مجھے پسند ہے مگر جیولری پہننا سخت ناپسند….. کیوں؟
کیونکہ گولڈ مجھے احساس دلاتا ہے سخت سی لوہے جیسی چبھن کا چوڑیاں انگوٹھی چین مجھ سے دس منٹ سے زیادہ برداشت کرنا طبیعت پہ بار ہوجاتا ہے
پچھلے دنوں ملکہ الزبتھ کی شارٹ وڈیو دیکھی اپنے شاہی تاج کے بارے میں سامنے خوبصورت ہیروں سے جڑا تاج رکھا تھا بالآخر ملکہ نے اعتراف کیا کہ تاج پہننا مشکل لگتا ہے کیونکہ یہ ڈیڑھ پونے دو کلو وزنی ہے…..
سچ کہا
مجھے ملکہ پہ پہلی بار ترس آیا
آخر یہ زیورات کا رواج آیا کہاں سے وہ بھی نازک اندام عورتوں کے لیے
اور خاص طور پہ مجھ جیسی جنہیں پھول کی پتی بھی کبھی کبھار گراں گزرتی ہے
ایک بار شوقیہ سفید کلیوں کا گجرا لے کر پہن لیا چند منٹ خوشبو بڑی مسحور کن لگی پھر لگا میرے کلائی میں الرجی ہورہی ہے اور پسینہ بھی آرہا ہے گجرا اتار کے جان چھڑائی….. ناک کا ن جو بچپن میں بندھوالیے تھے اب ان کے لیے خصوصی طور پر کچھ نہ کچھ پہننا پڑتا ہے ورنہ بند ہوجائیں گے اور میرے بچپن کی تکلیف اس کی اجازت نہیں دیتی….. مگر چاندی بھی چبھ جاتی ہے کانوں میں سونے کا ہلکا پھلکا کچھ پہن لو ٹاپس وغیرہ مگر ادل بدل کو….. دل نہیں مانتا اور وہی نازکی اس مزاج کی….. جیسے دھات چاہے سونا ہی ہو ٹھیس اس کی لوہے کی طرح لگتی ہے

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Read More

آبله پائ

بےکراں مسافتوں کیآبله پائمرهم گل سے کیامٹا چاهےانگ انگ میں پهیلی هےآرزو کی تھکنلهو نکال کے سارا بدل…
Read More
Glass pices
Read More

زوال

حسن اک زوال میں تھابکھرے ماہ و سال میں تھا وقت کی بےدرد چالوں پہآئینہ بھی سوال میں…
Read More