یادش بخیر 2

Front view of a smiling woman

شبانہ جب میری شاعری یا نظمیں پڑھتی ہے تو۔۔۔
“اف ۔۔۔توبہ ۔۔توبہ اتنا بڑا ڈرامہ “
(اداس ہیروئین بننے کا )
اور جب نثر پڑھتی ہے تو جل جل کے کہتی ہے
“اتنی شرارتی تو نہیں تھیں آپ ۔۔۔ہم نے تو ہمیشہ سنجیدہ ہی دیکھا ہے ۔۔۔ جھوٹ کیوں لکھتی ہیں کہ میں بہت ہنستی ہنساتی تھی ۔۔۔مسکراتے دیکھا ہے کھل کے ہنستے بھی کم ہی دیکھا ہے “
پر جب میرے زور زور سے قہقہے چھوٹتے ہیں تو اسے میری دل سے ہنسی پہ اعتبار آجاتا ہے
ہنسی کی بھی خوب کہی۔۔۔
لاڑکانہ میں بےبی میں اور ہماری خاصی چھوٹی بہن سی پڑوس کی دوست خاصی سمجھدار اور میچور بھی اکثر ہنسی کے فوارے اچھالتی رہتیں ۔۔۔ بےبی اور امینہ کی ہنسی سٹاپ نہیں ہو پارہی کسی بات پر ۔۔۔ میں اپنی گود میں ہی بے آواز لوٹ پوٹ ۔۔۔امینہ پریشان ہوگئی جب ان کی ہنسی رکنے کے بعد بھی سر نہ اٹھا
“اڑی ۔۔۔ ڈس تہ ڈس تہ باجی کھی چھا تھیو آ “
وہ سمجھی مجھے ہنستے ہنستے اعصابی کمزوری سے غش تو نہیں آگیا اچانک موٹی تازی کو ۔۔۔
بے بی نے اطمینان سے کہا
“ہل رہی ہے ۔۔۔منہ اٹھا کے دیکھو ہنس رہی ہوگی “
میرا منہ اٹھایا گیا ۔۔میرے وکھیاں چہرہ ناک منہ انکھ کان سب بے آواز ہنسی کا شہکار بنے ہوئے تھے۔۔۔
پھر اکثر وہ خود ہنس ہنسا کے میری بے آواز ہنسی کو میری ہی گود میں ابلتا ، ہلتا پڑے دیکھ کر خوب ہنسا کرتی تھیں
امینہ اور بے بی کا لوڈو کے حوالے سے بڑا ٹاکرا رہتا ۔۔۔ امینہ پکی پکروڑ بے بی خود بھولے سے گوٹیاں اس کے راستے میں آتے جاتے پٹوا کر روہانسی اور چڑچڑا جاتی کچھ لڑاکی بھی ہوجاتیں دونوں ۔۔۔ سارا دن ان کا یہی رولا رہتا لوڈو کھیلتے ۔۔۔ لوڈو کبھی آدھے میں اوندھی کبھی چڑ چڑائی لڑائی ۔۔۔ یاد ہے لوڈو کھیلتے سمےامی جی تک پوتے پوتیوں سے تو تو میں میں کر لیتی تھیں کہ یہ بھول کر کہ کھیل ہے اور ۔۔۔ اور اور ہماری لائبہ تو جب پہلی بار کھیلی تب اسے کھیلنا نہیں آتا تھا پہلی گوٹی پٹنے پر دھاڑیں مار مار کر منہ پھاڑ پھاڑ کر اتنا روئی اتنا روئی کہ سارے گھر کو وختا ڈال دیا کہ بے ہوش ہونے والی ہی ہوگئی ۔۔ سب لوڈو چھوڑ چھاڑ کر اسے سنبھالنے منانے شربت پانی پلانے لگے کہ رو رو کر بے مت ماردی سب کی
میری گوٹی ماری کیوں ؟
آخر میری گوٹی ماری کیوں ؟
اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے پستول سے اس کی گوٹی پہ فائیر کردیا ہو
بہت دیر لگی راضی کرنے میں۔۔
کھلاو تو مصیبت نہ کھلاو مصیبت گوٹی ماردو تو قیامت صغرا ۔۔۔ کھیلنا آتا نہیں اس کی گوٹیاں بھی چلاو۔۔ اپنی گوٹیوں سے بچاو بھی اور اپنی گوٹیاں خوامخواہ اس سے مرواو بھی جہاں اس کی مر رہی ہو اپنی مار کے خانے میں ڈال لو یا اوپر سے گن کر شرافت سے گزر جاو ۔۔۔ ایک ڈیڑھ سال اس نے گھر میں سب کا لوڈو کھیلنا حرام کئے رکھا ۔۔۔ لوڈو بچھتی شوقین دادی کی ایک دو کھلاڑی اور میدان میں لائبہ بھی چوتھے خانے کے سامنے براجمان۔۔۔ نہ ہو تو پٹکا ڈال دے گی کیا کھیلنا اور کھلانا اسے بہلانا ۔۔بلیک میلنگ گیم بڑی سادگی سے آن ہوجاتی ۔۔۔ سب کھیلتے اس کی گوٹوں کے اوپر سے بنا مارے گزر جاتے آخر میں اسے جتوا کر پھر خود جیتتے یا ہارتے۔۔۔تسلی سے لوڈو کھیلی جاتی اور لائبہ مسکرا کر کوئین آف دا لوڈو پلے بن جاتی ۔۔۔
اسی طرح کی ہلکی پھلکی نوک جھونک بے بی اور امینہ کے درمیان بھی رہتی لوڈو کھیلتے سمے ۔۔۔ مجھے خوف ہوتا اچھی بھلی فرینڈز ہیں کہیں مائنڈ نہ کرجائیں ۔۔۔ میں لاڑکانہ جاتی تو نہ چاہنے کے باوجود تیسرا کھلاڑی مجھے بھی بنا لیا جاتا ۔۔۔ میری ان کو بنا توڑ کی ہیٹ ٹرک ان پہ آج بھی قرض ہے مطلب تین بار مسلسل جیت گئی تھی بغیر ان کا توڑ ہوئے ۔۔۔ بہرحال ایک دن بےبی امینہ مسلسل نوکا جھونکی کرتے لڑائی کے قریب تھیں کہ ہارنے والی بےبی نے لوڈو موہدھی مار دی
امینہ روہانسی ہوکر
“قسم ہے جو اب کبھی کھیلوں”
میں لوڈو سے بیزار ایسے ہی کسی لمحے کے انتظار میں تھی شائید
امینہ اللہ کی قسم کھاو
امینہ اللہ کی قسم کھالو
تمہارا قصور نہیں تھا ۔۔۔ نہ کھیلنا آئندہ بے بی سے
اللہ کی قسم کھالو
میرے اکسانے پر ناعاقبت اندیش امینہ نے فورا قسم کھالی
“مجھے قسم ہے اللہ کی جو تمہارے گھر لوڈو کھیلوں”
شکر الحمدللہ ۔۔۔ روز روز کی جھنجھٹ سے جان چھوٹی میری لوڈو میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر بلکہ اتنی گیمنگ سے بیزاری ہوتی تھی
قسم جو کھائی امینہ نے تو
دل سے نبھائی مومنہ نے
ہزار ترلے منتوں پر بھی پھر کبھی نہ کھیلی
تین سال بعد ۔۔۔ اس کی برتھ ڈے پر ہم تیار ہوکر جب پڑوس میں اس کے گھر گئیں خوب خاطر تواضع کے بعد۔۔۔ دیکھا تو سامنے لوڈو کھلی پڑی ہے
“اچو تہ ھانی لوڈو کھیڈئون”
امینہ تم نے اللہ کی قسم کھائی تھی ۔۔۔ توڑ رہی ہے کیا؟
میں نے حیرانی سے پوچھا
نہیں ۔۔۔ ہم بہنیں گھر میں کھیلتے ہیں ۔۔۔ آپ کے گھر کی قسم کھائی تھی وہاں نہیں کھیلوں گی “
اوہ ۔۔اچھا مومنوں نے راستہ نکالا ہوا تھا ہیرا پھیری کا
پھر خوب بازیاں لگائیں اور پکی پکروڑ کھلاڑی سے بار بار ہار کر گھر کی راہ لی
بہت پیاری بچی ہے امینہ چھوٹی بہن ہے جیسے بالکل ہی شبانہ اور بے بی کی طرح ۔۔ اتنی زندہ دل لڑکی کبھی کبھار اس کی زندگی مسئلے مسائل پر بہت دکھی ہوجاتی ہوں ۔۔۔چڑچڑی سی ہوگئی ہے اللہ خوش رکھے اسے ۔۔۔اور مولوی شوہر کو واقعی گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی توفیق ایمان و ہدایت دے آمین نرا مسئلے مسائل کی پوٹ اور اسلامی ڈرامہ ، پریکٹیکلی زیرو ریسپونسبلٹی ۔۔ اللہ معاف کرے
اللہ امینہ کو سلامت رکھے آباد رکھے اور اس کی زندگی خوشی سکھ سکون اور مرادوں سے بھر دے آمین ثم آمین
یہ کورین سنگرز گروپ بی ٹی ایس کا ایک سنگر ہے ( ۔۔۔۔۔۔ نام یاد نہیں آرہا) ہمارے لڑکیاں / لڑکے دادی (اللہ بخشے )سمیت اس گروپ کے فینز رہے ہیں ۔۔۔
ایک لڑکی نے آن لائن یہ کشن منایا اسکی پوری عزت و احترام کرتی ہے ۔۔۔ اگر میری جیسی کوئی بھولے سے اس پہ بیٹھ جائے تو نیچے سے کھینچ لیتی ہے
اسکا نام لے کر
جنمن پہ کیوں وزن ڈالا ہے ؟
Jin min پہ کیوں بیٹھی ہیں ؟
ہاں اس کو جپھی ڈال کر بیٹھنے کی اجازت سب کو ہے ۔۔ مگر جزبہ ء رقابت بڑھ جائے تو جپھی کے بیچ میں سے کھینچ لیتی ہے ۔۔۔۔اور خود آپ کے والا پوز بناکے بیٹھ جاتی ہے ۔۔۔ہاہاہا
زرتاج گل ۔۔۔ آفیشل سے فرینڈ ریکوئیسٹ تھی ایکسپٹ کرلی آخر مریم نواز کو بھی تو ایڈ کر رکھا ہے ۔۔۔ اب دونوں کی پوسٹیں شئیر کر کرکے مقابلہ حسن کرایا کروں گی
ویسے میرے ذاتی خیال میں مریم زیادہ حسین ہے اور کمپیٹنٹ بھی شائید ثابت ہوجائے اپنے پیچھے دو رہنمائی کرتی قدآوار سیاسی شخصیا ت اور کچھ اپنی ذاتی صلاحیتوں سے ۔۔۔ وقت بتائے گا یہ !
چھوٹا سا میرا بچہ شہباز عمران جب مریم نواز کے حسن سے ٹی وی پر متاثر ہوا تو ۔۔۔
پہلا متاثر وہ ترکش ایکٹریس بھیتر کا ہے ۔۔کہ ڈرامہ دیکھ کر باپ سے کہتا تھا
بھیتر سے شادی کرکےمسٹر عمران کی بجائے مسٹر عدنان بن جاو اور اسے اپنے گھر لے آو ۔۔۔یہ پہلی اور آخری سوت تھی جو وہ اپنی ماں پر لانے پر راضی تھا باپ گانا گا کے چڑاتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں شہباز کی بہنا ہے
“نہیں ” چیخ کے کہتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں ندیم (ماموں) کی بہنا ہے (یعنی شہباز کی اماں)
شہباز آہستگی سے’ نہیں ‘ کہتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں عمران کی بہنا ہے (یعنی پھپھو)
شہباز صاف ‘کک’ کرکے نہیں کرتا ہے
پھولوں کا تاروں کا سب کا کہنا ہے
ایک ہزاروں میں پیکر کی بہنا (بھیتر ترکش ایکٹرس ) ہے
ننھے شہباز کی آنکھیں چمک جاتی ہیں چہرہ کھل کے گلاب ہوجاتا ہے
“ہاں “
ذرا ٹین ایج میں آیا تو اپنا ارادہ ظاہر کردیا باپ کے لئے سجیسٹو دوسری بیوی پر آپ بدنیت ہوگیا
“میں بھیتر سے شادی کروں گا “
اچھا بابا ٹھیک ہے بچپن کا عشق ٹین ایج میں بھی قائم ہے پتہ چل گیا
” پہلے پڑھ تو لو”
“ہاں ” رٹے بازی شروع ہوگئی ہل ہل کے
پھر مریم نواز ٹی وی پر اپنی حشر سامانیوں سمیت نظر آنے لگی باپ کے ساتھ ‘مجھے کیوں نکالا ‘جلسے جلوس میں
حسرت آمیز آرزو اور تجسس سے پوچھا ٹین ایج شہباز نے
یہ کس سے شادی کرے گی ( اتنی خوبصورت)
ٹین ایج شہباز کی دلی آرزو اور اشتیاق نے مجھے مسکرانے پر مجبور کرگیا
“بیٹا ۔۔۔ یہ شادی شدہ ہے اس کی بیٹی بھی شادی شدہ ہے اور یہ نانی اماں ہے “
“نئیں جھوٹ بول رہی ہیں آپ”
(میرا ننھا سا دل دہلانے کو )
“کسی سے بھی پوچھ لو اپنے پاپا سے پوچھ لینا اماں سے پوچھ لو جس سے مرضی پوچھو یہی سچ ہے”
شہباز کی آنکھوں میں نم حیرانی اتر آئی
“کس سے کی ہے شادی ؟”
“ہے ایک کیپٹن صفدر ( بونگا سا)”
“اس سے کیوں کی ؟”
“اس وقت یہ خود بھی بونگی (مگر بہت دلکش حسینہ) تھی ۔۔۔”
میں نے ہنس کر اس کی معلومات میں اضافہ کیا
کل صاحبزادے ہمیں بینک لے کر گئے راستے صاف ستھرے بہتر دیکھ کر اور ذرا فروٹس وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھ کر بے ساختہ نواز فیملی اور وزیر اعلی پنجاب کی کارکردگی تعریف ہونے لگی کہ پنجاب کا تو پتہ نہیں لاہور انہی کے دور میں بہتر ہوتا ہے
شہباز بھی زور وشور سے ہاں میں ہاں ملانے لگا ہاں مریم نواز بہت اچھی وزیر اعلی ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔
مجھے کچھ شک گزرا
“مریم جیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو”
“دولت مند ؟ ۔۔۔ہاں” چونک کربرجستگی سے دولت مند کا معیار مقرر کیا
اب اس کا معیار خوبصورتی نہیں دولت ہے جان کر خوشی ہوئی کہ بڑا اور سمجھدار بھی ہوگیا ہے
“ہاں دولت مند بھی حسین بھی “
“ہاں ۔۔۔ تو اور کیا چاہئے”
“چل اللہ تیرا بیاہ شریف فیملی جیسی کسی امیر فیملی کی حسین ترین لڑکی سے کرائے ۔۔۔ آمین”
اپنے بچے کو دل سے دعا دی !!
خوش ہوگیا میرا من موہنا جان من ۔۔۔ بچے راضی تے میں راضی میرا رب راضی ۔۔۔اللہ اللہ ۔۔ اللہ خیر دے وقت لہیاوے میرے سارے بچیاں نکیاں وڈیاں دے لئی ہمیشہ تے خوش تے آباد رکھے جین جوگیاں نوں ، سلامت رہیں سب آمین ثم آمین
یہاں میں نے اردو شعر میں سندھی اسٹائل میں فرحت کا استعمال کیا ہے ۔۔۔۔ فرحت ویسے ہم سب کی بچپن کی دوست تھی ۔۔ ہے ماشاللہ پاکستان سے باہر کہیں مختصر اور کبھی کبھار کے رابطے میں ۔۔۔ پکی پکی مدرست المعلمہ ء اسلامی بن چکی ہے جوانی شبنم کی ایکٹنگ سے چورا چور تھی آج تک شبنم کو دیکھیں تو شبنم نہیں لگتی ف ر ح ت لگتی ہے آخری بار جب بات ہوئی بے بی کے موبائل کے تھرو ۔۔وہ میرا نمبرمانگنے پر بضد تھی ڈرتے ڈرتے دے دیا کہ بے بی کے نمبر پر جو ایک گھنٹہ اس نے مجھے مدرساتی اسلامی حجاباتی عبایاتی فلسفیاتی صوفیاتی اور روحانیاتی لیکچر دیا ۔۔۔ وہ میرے سر سے گزرا جو گزرا مگر اس کا بیشتر حصہ میں پہلے سے جانتی تھی بلکہ اس کی معلومات میں ‘اضافیاتی ‘ دخل اندازی بھی کرسکتی تھی مگر ۔۔۔
ہم چپ رہے ہم ہنس دئیے منظور تھا پردہ ترا ،
پھر اس نے نمبر نمبر مانگنے کی گردان رکھی کہ روزانہ تمہیں لیکچر دیا کروں گی ۔۔۔ اس نے کچھ اس طرح اپنے ارادے کا اظہار کیا کہ تکوین کائنات میں شائید اتنے سالوں بعد دوبارہ بات ہونے کا مقصد ہی یہ ہے مجھے تمہاری رہنمائی کرنی ہے اور تمہیں عبایہ سلوانے پر مجبور کرنا ہے ۔۔۔ میں ڈر گئی سہم گئی سوچنے لگی بیبیوں کی سنت کے مطابق میں اکثر اندر باہر جاتے سمے چادر کا استعمال تو کرہی لیتی ہوں چہرہ اگرچہ نہیں ڈھکتی کہ ڈھلتی عمر کی دلکشی
کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا نظر رکھ کے یا نظر لگا کے ۔۔۔ جوانی میں یہ اپنی سادگی و کم روئی کی وجہ سے یہ جزباتی ہیجان انگیزی کا کارن نہ بنا تو اب تو کم و بیش پیش آمد بڑھاپے کی بیچارگی سے نقاب سا پڑھا رہتا ہے اندرون مزاج کی ساری شوخیوں اور رعنائیوں پر ۔۔۔
ڈر گئی میری تے مت ماری جانی اڈے وڈے وڈے مدرسیاتی رٹیاتی لیکچر تے ۔۔۔ جدوں کہ میں تے اس علم لدنی چ ایدے سامنے پی ایچ ڈی دی ڈگری دا درجہ آپ رکھنی آں ۔۔۔ ہاہاہا
اونہوں بڑی شکایت رہی جدوں وی بعد چ گل ہوئی ۔۔ تیرا نمبر مینوں نئیں ملدا (میں تیری رہنمائی کرنی سی )
میرا کی دوش ۔۔ مرضی میرے رب دی
جہاں بھی ہو سلامت رہے ہماری پیاری سی فرحت ۔۔۔ ہمیں شبنم کے روپ میں بہت بھلی لگتی تھی ۔۔ اللہ ایمان ایقان اور بزرگی میں اضافہ کرے آمین ثم آمین اس شعر میں فرحت لفظ آیا تو اس کی یاد بھی ذہن پہ اتر آئی سلامت رہے خوش رہے جہاں بھی ہو اور کامیابی سے مدرسہ چلا رہی ہو آمین ثم آمین

دل پہ ہول ہے رکے ہوئے کاموں کا
جتنی جلدی ہوجائیں ، فرحت ہو

“نی میری بھولی پنچھنی!”
آ میرے سینے نال لگ جا
“آجا میری بھولی پنچھنی…. میری دھی! “
امی جی شروع ہی سے میرے بارے میں یہ رائے رکھتی ہیں
“میری بھولی دھی !”
میرا خیال ہے ہم سب ہی دل کے بھولے بھالے لوگ ہیں
“ساری رات بہہ رہئ ایں “
رات جب وہ سوگئیں تب اسلم بھائ ، ازکی اور عبدالرحمن وقفے وقفے سے انکے پاس آگئے تھے یہ دونوں بچے نیند کے بڑے پکے ہیں اور میں… میں تو بچپن سے آج تک نیندوں کی شہزادی ہوں دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے میں اپنی نیند کے وقت سے سمجھوتہ نہیں کرپاتی اور بہت گہری خوابوں باتوں خراٹوں سے پر نیند سوتی ہوں تو جیسے ہی امی جی کو نائیٹ اٹینڈنٹ کی ضرورت پڑی مجھے استثناء مل گیا گوکہ پہلے میں امی کے پاس ہی سوتی تھی مگر میری نیندکا جائزہ لے کر بغیر غور وخوض کے رات سب سے زیادہ دیر تک جاگے رہنے والے بھائی نے یہ ڈیوٹی سنبھال لی اس کے دونوں بچے اس سے بھی ماسٹر ان جاگرَاتا ہیں رات دس بجے میری نیند شروع صبح چار بجے فجر کی نماز کی وجہ سے جاگتی ہوں اور امی کے پاس آجاتی ہوں تسبیحات درود کلام پاک کا ورد کر کے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد پھر دوبارہ سوجاتی ہوں
اس پڑھائی کے دوران اگر وہ جاگ رہی ہوں تو مجھے دیکھتی رہتی ہیں اور میں بھولی پنچھی جیسی لگتی ہوں انہیں
“اج ساری رات جاگی ایں…. میری دھی، میرے کول ای بہہ رہئی ایں میری بھولی پنچھی…. سمجھ لا اج لیلت القدر سی، میں اپنی ماں لیئی جاگی آں… “
“اچھا…. “
انہیں مسلسل میرے بھولپن پہ پیار آرہا ہے اور میں ان کے بھولپن پہ مسکرا رہی ہوں
پھر انہیں یاد آگیا
لیلیاں نوں پایا کجھ”
“گھاہ.. “
“روٹی نہ پایو… پیٹ خراب کردی اے “
اک پرانی رضائی لے کے نا…. ادھی تھلے وشا کے ادھی اونہاں دے اتے دے دے…. نکے نکے کرونبل جئے نے ٹھنڈ نہ لگدی رہے”
” امی… تہانوں ٹھنڈ لگ رئی اے پیراں تے چادر پا دیواں “
انکے پیروں پہ چادر ڈال دی ہے…. آج ابر کی وجہ سے گرمی کا زور بھی کچھ ٹوٹا ہوا ہے
پھر انہوں نے کوئی بات کی…. میں آنکھوں پہ دوپٹہ رکھ چکی تھی سونے کے لئے
امی… نیند آرئی اے میں سون لگی آں “
“اچھا اچھا…. سوں جا میری بھولی پنچھنی”
بھولی پنچھنی…. بھولی پنچھنی… دوتین بار ہی سنا ہوگا کہ میں دوبارہ فجر کے بعد والی نیند میں ڈوب گئی ، خواب میں برگر کلاس کی ایک خاتون پینٹر کو پینٹنگز بناتے دیکھتی رہی جو کسی مردانہ سماجی رویئے کے خلاف تھیں اور ایک پینٹنگ میں تین چار مرد مونچھوں تک دریا یا پانی میں ڈبوئے ہوئے تھے اسکی نمائش بھی تھی اسی روز اور وہ بہت مصروفیت سے پینٹنگز پر فائنل اسٹروکس لگا رہی تھی ایک ہی دن میں اس نے کمال پھرتی اور مہارت سے تین چار پینٹنگز تیار کرلی تھیں، مجھے پہلے اس کے کام پر بھروسہ نہیں تھا مگر اب میں دلچسپی سے پینٹنگز دیکھ کر اچھا محسوس کر رہی تھی ایک دن میں خاصا اچھا کام کرلیا تھا اس نے…… جاگ گئی ہوں پونے سات بجے، فجر کی نماز کے بعد دوبارہ اگر نہ سوؤں تو میں سارا دن تھکی رہتی ہوں آندھی ہو طوفان ہو کالج ہو ویکیشن ہو فجر کی نماز کے بعد سونا میرے لئے ناگزیر ہے ورنہ گھر میں کون مجھے نیند کی شہزادی سمجھے گا….. صبح بخیر !
ہماری لائبہ تن دہی سے بلی اور اسکے تین بچوں کو پال پوس رہی ہے
اپنی پاکٹ منی بھی انکی ڈائیٹ چکن فوڈ اور دودھ وغیرہ پر لگا دیتی ہے
لائبہ کیا حال ہے بچوں کا؟ “
” کھیل رہے ہیں….انجوائے کر رہے ہیں”
” تجھے کیا سمجھتے ہیں…. آنٹی یا خالہ؟ “
” نوکر ” لائبہ سڑ کر بولی
ٹین ایج تھی سردی نہیں لگتی تھی
سب گھر والے کمروں میں گرم بستروں میں دبکے پڑے ہوتے
میں باہر صحن میں نکل آتی اور سردیوں کی چٹکی چاندنی میں دل کھول کر پوری آواز میں خوامخواہ ہی شوقیہ اقبال بانو کا گایا گیت گایا کرتی
ستارو تم تو سو جاؤ
پریشاں رات ساری ہے
کیونکہ یہ اسی وقت گانے والا گیت ہے رات کے سکوت میں آواز کے سر اور گونج کا سماں بن جاتا
دو ایک بول گاکر کپڑے لٹکانی والی تار پکڑ کر دو تین پوز مار کر لگتا تھا چاندنی رات منا کر آئی ہوں اسی وقت کوئی تیتری بھی چیختی ہوئی سنائی پڑتی دو تین بار چیختی ہوئی اسک آواز پاس آکر کہیں دور اڑتی چلی جاتی…. رات اور چاندنی کا سرور کچھ اور دوبالا ہوجاتا… اور پھر ہیروئین اندر جاکے سوجاتی
سرکاری ملازم جتنا بھی اتھرا ہو
اسے حکم زباں بندی اور تابعداری ہے
اپنے جائز حقوق کے لئے بھی اس بظاہر چنٹ مگر اندر سے ڈری سہمی مخلوق کو یونینز بنانی پڑتی ہیں وہ بھی سرکار کی اجازت سے
دوسری صورت میں جھونک دو جوانیاں فائلوں اور کمپیوٹروں میں نظریں گڑائے گڑائے
مدقوق بڑھاپا گنجاپن اور ذہنی پختگی لے کر لوٹ کے بابا / بےبے
اپنے گھر کو جاؤ
پنشن بیماریوں اور کھوں کھوں کے ساتھ جیسے اور جتنا بس میں ہو…
وقت ہنڈاؤ
اگرچہ ہم شروع ہی سے شہر میں پیدا ہویے شہر میں رہے
شہری بابو بچے تھے مگر بی بی (نانی) اللہ بخشے بنیادی طور پر گرداس پور کے گاؤں سے ہجرت کر کے آئیں تھیں اس لئے انہیں پنڈ کا ہوکا رہا ساری زندگی
کبھی وہ شوقیہ چرخا کاتتیں ویلنا چلاتیں دوپاٹ والی چکی پیستیں نالے پراندے بنتین مکھن بلوتیں تندور پہ روٹیاں لگاتیں ہم سارے ہی بچے جب وہ چرخہ ڈاہتیں ان کے آلے دوالے ہوکر تند وٹن دی کوشش کرتے… انہی کی وجہ سے ان سب چیزوں سے تعارف ہوا آج بھی دیکھ کر اپنائیت اور انسیت محسوس ہوتی ہے

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More